Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بٹگرام: چیئر لفٹ میں پھنسے تمام 8 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا

خیبر پختونخواہ کے ضلع بٹگرام تحصیل الائی میں چیئر لفٹ میں پھنسے ہوئے تمام اآٹھ افراد  کو ریسکیو کر لیا گیا  ہے۔
منگل کی صبح چیئر لفٹ کی رسی ٹوٹ جانے کے باعث سکول کے بچے اور اساتذہ  دریا کے اوپر 900 فٹ کی بلندی پر لفٹ میں پھنس گئے تھے۔
دن بھر کی ریسکیو آپریشن کے بعد رات گئے تمام افراد کو نکال لیا گیا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق چیئر لفٹ میں پھنسے تمام آٹھ افراد کو ریسکیو کر لیا گیا۔
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی ریسکیو آپریشن کامیابی سے مکمل ہونے پر اطمیان کا اظہار کیا۔
سب سے پہلے مغرب سے تھوڑی دیر قبل فوجی ہیلی کاپٹر نے ایک بجے کو ریسکیو کیا۔
جھنگڑی کے مقام پر موجود مقامی شخص سیف الاسلام نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ  ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک بچے کو ریسکیو کیا گیا۔  ’پہلے ہیلی کاپٹر سے چیئر لفٹ میں پھنسے افراد کو حفاظتی بیگ فراہم کیا گیا جس میں لائف جیکٹ اور دیگر ضروری سامان موجود تھا۔‘  
’بیگ دینے کے بعد بچے نے حفاظتی جیکٹ پہنا تو ہیلی کاپٹر سے نوجوانوں نے رسی پھینکی۔ بچے نے مضبوطی سے رسی پکڑی اور مضبوط گانٹھ دے کر خود کو باندھ لیا۔‘
سیف الاسلام کے مطابق اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے رسی کھینچی گئی۔ ’جب چیئرلفٹ سے بچہ نکل آیا تو کمانڈو نے بچے کو اپنے ساتھ پکڑ کر بحفاظت ہیلی کاپٹر پر پہنچا دیا۔‘
مقامی افراد کے مطابق ایک بچے کو ریسکیو کرنے کے بعد اندھیرا چھا گیا اس لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کو روک دیا گیا اور گراؤنڈ آپریشن شروع کیا گیا۔
موقع پر موجود مقامی لوگوں کے مطابق مقامی ریسکیو دستہ چیئر لفٹ تک پہنچ گیا۔ چیئر لفٹ تک رسائی کے لیے تار بچھا دیا گیا۔
چیئر لفٹ میں پھنسے سکول ٹیچر گلفراز اور مقامی رضاکاروں کے  درمیان رابطہ ہوگیا جس کے بعد ریسکیو لفٹ کے ذریعے بچوں کو بحفاظت نکال کیا گیا۔
قبل ازیں کیبل کار میں پھنسے ہوئے افراد میں سے ایک گل فراز کا اے ایف پی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’شام ہو رہی ہے۔ ہمین بتائیں کہ ہیلی کاپٹر واپس کیوں جا رہے ہیں۔‘ ’خدا کے لیے ہمیں بچائیں۔‘
سیف الاسلام نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ریسکیو کے لیے کل پانچ ہیلی کاپٹرز پہنچے تھے۔ ہیلی کاپٹرز نے بچوں کو نکالنے کی کئی مرتبہ کوشش کی لیکن سوائے ایک بچے کو کسی کو نہیں نکالا جاسکا۔

ریسکیو آپریشن 12 سے زیادہ گھنٹے جاری رہنے کے بعد کامیاب رہا 

اس سے پہلے کیا ہوا؟

قبل ازیں دن کے وقت  موقع پر والدین کے ساتھ موجود  موجود عمر رحمان نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا ’یہاں صرف ہیلی کاپٹرز ریسکیو آپریشن نہیں کر رہے بلکہ مقامی ریسکیو ٹیمیں بھی پہنچ چکی ہیں اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں بھی موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ بچوں کے والدین نے مقامی ریسکیو ٹیموں کو ریسکیو آپریشن کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
’والدین کا اعتماد ہے کہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے یہ ریسکیو آپریشن کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن پھر بھی مقامی ریسکیو ٹیمیں تیار ہیں جو چیئر لفٹ کے کیبل کی مدد سے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تاہم بچوں کے والدین اجازت نہیں دے رہے۔‘
سیف الاسلام نے اردو نیوز کو دوسری جانب موجود لوگوں کے احوال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا ’دوسری جانب بھی لوگ کوششیں کر رہے ہیں۔ جتنا ہمیں دکھائی دے رہا ہے تو وہ لوگ شاید دوسری کیبل لگا کر بچوں تک پہنچنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

عمر رحمان نے بتایا کہ نیچے دریا ہے اس لیے نیچے سے حفاظتی اقدامات کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ’اندھیرا بڑھ رہا ہے اور رات کے وقت ہوا کی رفتار بھی زیادہ ہوتی ہے اور ریسکیو آپریشن تاحال بے نتیجہ ہے۔ رات کو اندھیرا ہو جائے گا۔ ریسکیو ٹیموں نے مزید دو گھنٹے مانگے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ دو گھنٹوں میں اپریشن مکمل ہو جائے گا۔‘
ان کے مطابق مقامی لوگ بھی اپنی تئیں کوششیں کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اجازت نہیں مل رہی ہے۔ ’مقامی لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں خطرہ ہے اس لیے انہیں اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔‘
عمر رحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ نیچے دریا بہہ رہا ہے اس لیے نیچے سے حفاظتی اقدامات کرنا مشکل ہے۔
عمر رحمان کا کہنا تھا کہ ’جیسے ہی ہیلی کاپٹر چیئر لفٹ کے قریب جاتا ہے تو رسیاں ہلنے لگتی ہیں اور چیئر لفٹ بھی معلق ہے تو یہ خطرے سے خالی نہیں۔ ہیلی کاپٹر قریب جاتے ہی بچے ڈر جاتے ہیں‘
’ہیلی کاپٹر سے رسی پھینک کر بھی کوشش کی گئی لیکن ہیلی کاپٹر کا دباؤ اتنا ہے کہ چیئر لفٹ گرنے کا خدشہ ہے۔‘
کیبل کار، پہاڑی علاقوں میں آمد و رفت کا ذریعہ
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا اور گلگلت بلتستان میں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے کیبل کار کا استعمال عام ہے۔ کیبل کار یا چیئرلفٹ گلگت اور خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں جہاں روڈ تعمیر نہیں کیے جاسکتے آمدورفت  کا ذریعہ ہے۔
2017 میں اسلام آباد کے قریب ایک گاؤں میں چیئر لفٹ ٹوٹ کر گرنے سے 10 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

شیئر: