شانگلہ میں موٹر بائیک چوری ہونے پر آٹھویں جماعت کے طالب علم کی ’خودکشی‘
شانگلہ میں موٹر بائیک چوری ہونے پر آٹھویں جماعت کے طالب علم کی ’خودکشی‘
جمعہ 11 اگست 2023 6:34
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
پولیس حکام نے بتایا کہ زوہیب کی بائیک اب بھی تھانے میں موجود ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
زوہیب پریشانی کے عالم میں کبھی ہسپتال کی پارکنگ میں جاتا اور کبھی دروازے پر۔ اس نے ٹریفک پولیس کے اہل کاروں سے بھی بات کی اور متعلقہ پولیس سٹیشن میں بھی رابطہ قائم کیا، مگر کوئی اس کی چوری شدہ بائیک کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔
زوہیب کے لیے دوست اور گھر والوں کے سوالوں کا جواب دینا آسان نہیں تھا۔ اس وقت اس نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا اور قریب کھیتوں میں جا کر کیڑے مارنے والی دوا کھا لی۔
آٹھویں جماعت کا طالب علم زوہیب جب درد سے کراہنے لگا تو گھر کا رُخ کیا اور اپنے اہلخانہ کو پوری کہانی سنائی جنہوں نے دیر نہیں کی اور زوہیب کے کزن انجم ضیا اسے فوری طور پر ہسپتال لے گئے۔
ایمبولینس میں زوہیب کے ساتھ موجود انجم ضیا نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے ایمبولنس میں زوہیب سے کہا کہ ایسا کون کرتا ہے؟ جس پر اس نے کہا کہ وہ ڈر رہا تھا کیوںکہ اس نے بائیک ڈھونڈنے کی پوری کوشش کی تھی، تاہم اسے بائیک نہیں ملی جس کے بعد اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔‘
زوہیب کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے ہے۔ اس کے والد ارشاد ملوک فوج سے ریٹائر ہوئے ہیں اور ان دنوں کوئٹہ کی ایک کوئلہ کان میں مزدوری کرتے ہیں۔
ارشاد ملوک نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں اپنے تین بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئلہ کان میں مزدوری کرتا ہوں تاکہ ان کے تعلیمی اخراجات پورے کر سکوں۔ زوہیب نجی سکول میں آٹھویں جماعت کا طالب تھا اور وہ سکول میں ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتا تھا۔‘
زوہیب کے دادا بیمار تھے تو انہوں نے زوہیب سے انہیں ہسپتال لے جانے کے لیے کہا۔
زوہیب گھر سے باہر نکلا اور اپنے دوست سے بائیک لے کر گھر لوٹ آیا۔ وہ اپنے دادا کو بائیک پر بٹھا کر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے گیا۔
ان کے والد بتاتے ہیں کہ ’میں خود تو کوئٹہ میں تھا، لیکن گھر والوں نے مجھے بتایا کہ زوہیب جب ہسپتال پہنچا تو بائیک پارک کرنے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، اس لیے اس نے بائیک ہسپتال کے گیٹ کے ساتھ ہی پارک کر دی۔‘
’زوہیب جب ہسپتال سے فارغ ہوا تو اس کی بائیک غائب تھی۔ اس نے پہلے اپنے دادا کے ٹیسٹ کروائے اور پھر انہیں ایک گاڑی میں بٹھا کر گھر بھیج دیا۔‘
ارشاد ملوک نے مزید کہا کہ ’زوہیب بائیک نہ ملنے پر پریشان ہو گیا اور اس نے ٹریفک پولیس اور متعلقہ تھانے میں بھی بات کی مگر بائیک نہ ملی۔‘
زوہیب کے کزن انجم ضیاء نے اس کے ساتھ تحصیل پورن سے سوات کے سیدو شریف ہسپتال تک ایمبولینس میں وقت گزارا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب بائیک نہیں ملی تو زوہیب بے چین ہو گیا۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آ اور ایک جا رہا تھا۔ اس نے سوچا ہو گا کہ دوست اور گھر والوں کو کیا جواب دوں گا۔ جب بائیک نہیں ملی تو زوہیب نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘
اہل خانہ کے مطابق سوات کے ہسپتال پہنچنے پر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ زوہیب کی خودکشی کی خبر پھیلی تو علاقے میں مختلف قیاس آرائیاں ہونے لگی۔
سماجی کارکن دایان غفار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’زوہیب کی موت کے بعد یہ قیاس آرائی ہونے لگی کہ پولیس نے اہم شخصیات کی علاقے میں آمد کی وجہ سے غلط پارکنگ کرنے پر اس کی بائیک وقتی طور پر تھانے میں بند کر دی تھی۔‘
پولیس حکام نے ان تمام دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس ریکارڈ سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔‘
پولیس حکام نے اعتراف کیا کہ ’زوہیب کی بائیک اس وقت تھانے میں ضرور موجود ہے کیوں کہ زوہیب نے جب ہسپتال کے باہر بائیک کھڑی کی تو اسی وقت عباس نامی نوجوان وہاں آیا اور زوہیب کی بائیک کے ساتھ ہی اپنی بائیک پارک کر دی۔ واپسی پر اس نے توجہ نہیں دی اور وہ غلطی سے زوہیب کی بائیک لے گیا۔‘
عباس کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے پولیس حکام سے رابطہ کیا اور یہ تسلیم کیا کہ ’وہ ایک دوسری بائیک غلطی سے لے گیا تھا جو مل جائے تو اس کے مالک کو واپس کر دی جائے۔‘
پولیس حکام نے بتایا کہ ’زوہیب کی بائیک اب بھی تھانے میں موجود ہے اور ابھی تک کسی نے بائیک کی حوالگی کے کے لیے متعلقہ تھانے سے رجوع نہیں کیا۔‘
بائیک غلطی سے لے جانے والے عباس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’وہ غلطی سے بائیک لے گیا تھا جس کے بعد اس نے خود تھانے جا کر رپورٹ درج کروائی۔‘
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے خاندان کی جانب سے زوہیب کے خودکشی کرنے کے دعوے کی بھی تردید کی ہے۔‘
پولیس حکام کے مطابق ’زوہیب نے ہسپتال میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا جس میں اس نے یہ تسلیم کیا کہ اسے پیٹ میں شدید درد محسوس ہوا تو اس نے درد کی دوا کھانے کے بجائے غلطی سے کیڑے مار دوا کھا لی جس کے بعد اس کی حالت غیر ہوگئی جس پر زوہیب کے چچا نے بھی دستخط کیے ہیں۔‘
مگر زوہیب کے والد نے یہ دعویٰ کیا کہ ’میرا بیٹا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ درد اور کیڑے مار دوا میں فرق جانتا تھا۔‘
سماجی کارکن دایان غفار نے کہا کہ ’والدین اپنے بچوں کے ساتھ نرمی برتنے کی کوشش کریں۔ بچوں کے لیے جب خوف کی فضا پیدا ہو جاتی ہے تو وہ دنیا کا سامنا نہیں کر پاتے، لہٰذا انہیں خوف میں مبتلا کرنے کے بجائے حوصلہ دینا چاہیے تاکہ وہ نفسیاتی طور پر مضبوط رہیں اور دنیا کی حقیقتوں کا سامنا کر سیکھیں۔‘