Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اولادِ نرینہ کے لیے حاملہ خاتون قتل: ’پیٹ چاک کر کے بچہ نکالا گیا‘

پولیس کے مطابق اس کیس میں اب تک چار ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
رفیعہ کوثر اپنے شوہر ظہیر علی کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھیں۔ وہ آٹھ ماہ کی حاملہ تھی لیکن گھریلو کام کاج خود کرتی تھیں۔ چند کمروں پر مشتمل اس گھر میں ظہیر اور رفیعہ ہنسی خوشی رہتے تھے۔ ان کے گھر چند ہفتوں بعد ایک بڑی خوشی آنے والی تھی جس کے لیے دونوں میاں بیوی کی خوشی دیدنی تھی۔
سنیچر کو معمول کے مطابق رفیعہ کو اپنی بڑی بہن کی فون کال موصول ہوتی ہے۔ اسی دوران کوئی بچہ دروازے پر زور زور سے دستک دیتا ہے۔ وہ دروازہ کھولتی ہیں تو بچہ انہیں کسی خاتون ڈاکٹر کا حوالہ دے کر باہر آنے کا کہتا ہے۔ رفیعہ کوثر اپنے شوہر کو مطلع کر کے باہر جاتی ہیں جس کے بعد وہ گھر واپس نہیں آتیں۔
اتوار کو مسلسل تلاش کے بعد ان کی لاش قریبی گھر سے صندوق میں برآمد ہوتی ہے۔ ان کا جسم کاٹ کر صندوق میں ڈالا گیا ہوتا ہے۔ محلے والے ارد گرد جمع ہوتے ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر رحیم اللہ بھی عین موقع پر موجود ہوتے ہیں۔
یہ واقعہ سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کے علاقے وڈا باغ میں سامنے آیا۔ اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد مقامی تھانے کی پولیس موقع پر پہنچی اور تفتیش شروع کر دی۔
لاش کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ ملزمان کی تلاش شروع ہوئی۔
اس واقعے کے حوالے سے رفیعہ کوثر کے شوہر ظہیر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گزشتہ دنوں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ گھر پر موجود تھے اور ان کی اہلیہ اپنی بڑی بہن سے فون پر بات کر رہی تھیں کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور وہ باہر چلی گئیں۔ اندر آ کر انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر ارم نے بلایا ہے شاید چیک اپ کرنا چاہتی ہیں۔‘
ظہیر علی کے مطابق ان کی اہلیہ باہر گئیں لیکن پھر واپس نہیں لوٹیں تو ان کو فکر ہونے لگی۔
’جب میری اہلیہ کافی وقت گزرنے کے بعد بھی گھر واپس نہیں آئی تو میں پریشان ہوا۔ میرے خاندان والے اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑے۔ ہم نے مقامی تھانے میں شکایت بھی درج کروائی۔‘

یہ واقعہ سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کے علاقے وڈا باغ میں سامنے آیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ذوالفقار علی شاہ مقتولہ کے بہنوئی ہیں اور مقتولہ کو اپنی بہن مانتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اُن کو اپنی بہن کی گمشدگی کا علم رات کو ہوا اور وہ صبح سویرے اپنے ہم زلف کے ہاں پہنچ گئے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم اپنی بہن کو ڈھونڈ رہے تھے کہ اچانک ہمیں خیال آیا کہ ان گھر کے سامنے ایک گھر کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، ان کی ریکارڈنگ دیکھ لیتے ہیں۔‘
ذوالفقار علی شاہ کے مطابق ڈاکٹر رحیم اللہ اپنی اہلیہ اور سالے شاہ زیب کے ساتھ اسی فلیٹ میں رہتے تھے جہاں ان کی بہن رہائش پذیر تھیں۔
’ڈاکٹر رحیم اللہ کا گھر ہماری بہن کے گھر کے اوپر تھا۔ ہم ریکارڈنگ دیکھنے گئے تو ہماری نظر ایک صندوق پر پڑی۔ کچھ نوجوان وہ صندوق ہمارے ہی فلیٹ کی طرف لے کے گئے لیکن جب تین گھنٹوں کے بعد وہ صندوق نیچے اتارا جا رہا تھا تو وہ خاصا وزنی معلوم ہو رہا تھا۔‘
ان کے مطابق جو نوجوان یہ صندوق نیچے لا رہے تھے انہوں نے پولیس کو بتایا ہے کہ کسی خاتون نے ان سے صندوق اتارنے میں مدد مانگی تھی۔
’ان نوجوانوں کو صندوق کے غیرمعمولی وزن پر شک گزرا اور انہوں نے اس کا تعاقب بھی کیا اور پھر صبح جب یہ معاملہ اٹھا تو ان نوجوانوں نے ہمیں بتایا کہ وہ صندوق ہمارے گھر کے سامنے ایک مکان میں پڑا ہے۔

ذوالفقار علی شاہ کے مطابق ’وہ صندوق اتنے چھوٹا تھا کہ کوئی بچہ بھی اس میں نہیں لیٹ سکتا۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

رفیعہ کوثر کے بہنوئی ذوالفقار علی شاہ نے بتایا کہ جب وہ نوجوان ان کو وہاں لے گئے تو وہ صندوق وہیں پڑا ہوا تھا۔
’ہم اندر گئے اور صندوق کا تالا توڑا۔ جس وقت تالا توڑا گیا اور صندوق کھولا گیا تو ارد گرد سارے لوگ خوف کے مارے بھاگنے لگے کیونکہ اُس میں ہماری بہن کی لاش ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈالی گئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی صندوق کے قریب نہیں جا رہا تھا لیکن وہ صندوق کے قریب گئے اور لاش دیکھنے لگے۔ وہ میری بہن رفیعہ کی لاش تھی۔ اس کا گلا کاٹا گیا تھا۔ ٹانگیں توڑی گئیں تھیں۔ سر پر چوٹ تھی۔ اس کا پورا پیٹ چاک کیا گیا تھا۔ ہم یہ منظر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہماری بیٹی پر جو ظلم ہوا ہو گا وہ صرف وہ ہی جانتی تھی۔‘
ذوالفقار علی شاہ نے کمزور سی آواز میں کہا کہ ’وہ صندوق اتنے چھوٹا تھا کہ کوئی بچہ بھی اس میں نہیں لیٹ سکتا لیکن ان ظالموں نے ہماری بچی کا جسم چاک کر کے اس میں ڈال دیا تاکہ ان کا جرم چھپ سکے۔‘
اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد مقامی تھانے کی پولیس موقع پر پہنچی اور تفتیش شروع کر دی۔  لاش کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ ملزمان کی تلاش شروع ہوئی۔

پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

رفیعہ کوثر کے بہنوئی ذوالفقار علی شاہ نے اردو نیوز کو مزید بتایا کہ جب وہ صندوق کے پاس پہنچے تو اس وقت ڈاکٹر رحیم اللہ بھی موقع پر موجود تھے۔
’ڈاکٹر رحیم اللہ وہاں موجود تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہو سکے لیکن پولیس نے بھر پور تعاون کر کے چار ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔‘
پولیس کے مطابق اس کیس میں اب تک چار ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں جن میں سے ڈاکٹر رحیم اللہ نے اقبال جرم بھی کر لیا ہے۔
ملزمان کے مطابق مقامی رہائشی عزیز بی بی کو اولاد نرینہ کی خواہش تھی اور وہ کسی بھی صورت بچہ چاہتی تھی۔
اس حوالے سے ظہیر علی نے الزام عائد کیا کہ ’عزیز بی بی نے ڈاکٹر رحیم اللہ کو پیسے دے کر یہ واردات کرنے کا کہا ہو گا جس میں ان کی اہلیہ ارم اور ان کے سالے شاہ زیب بھی ملوث ہیں۔‘
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ’رفیعہ کوثر کے پیٹ کو چاک کر کے بچہ نکالا جا چکا ہے۔‘
رفیعہ کوثر کے شوہر ظہیر علی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ بچہ اب بھی زندہ ہے جس کے لیے پولیس تفتیش کر رہی ہے۔‘
’عزیز بی بی نے جب بچہ حاصل کر لیا تو ڈاکٹر رحیم اللہ نے انہیں لاش ٹھکانے لگانے کا کہا جس پر انہوں نے مل کر میری اہلیہ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور عزیز بی بی نے اسے صندوق میں ڈال کر ہمارے گھر کے سامنے ایک مکان میں رکھ دیا تاکہ وہ موقع پاتے ہی اسے ٹھکانے لگا سکے۔‘
پولیس کی بچے کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں جبکہ رفیعہ کوثر کے شوہر ظہیر علی کو امید ہے کہ بچہ جلد مل جائے گا۔ وہ حکام بالا سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔

شیئر: