Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی حلقہ بندیوں کی حتمی تاریخ 30 نومبر، الیکشن جلد ہو جائیں گے؟

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندی کی حتمی اشاعت 30 نومبر 2023 کو ہو گی (فوٹو: گیٹی امیجز)
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ اس نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد حلقہ بندیوں کا دورانہ مزید کم کر دیا ہے۔
جمعے کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی حلقہ بندی کی حتمی اشاعت 30 نومبر 2023 کو ہو گی۔
الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ’حلقہ بندی کے دورانیے کو کم کرنے کا مقصد جتنا جلدی ممکن ہو سکے، الیکشن کا انعقاد ہے۔‘
الیکشن کمیشن کا یہ اعلان ایسے حالات میں آیا ہے جب نئی مردم شماری کے نتیجے میں ہونے والی حلقہ بندیوں کے عمل کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں عام انتخابات کی تاریخ میں تاخیر کے خدشات پائے جاتے ہیں۔
بیشتر سیاسی جماعتوں کے بیانات سے تو یہی لگتا تھا کہ آئین میں درج دورانیے کے مطابق عام انتخابات چاہتے ہیں لیکن الیکشن وقت پر ہو سکیں گے، اس بارے میں ابھی تک غیریقینی قائم ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نمایاں سیاسی جماعتیں وقت پر الیکشن کرانے کے بیانات سے ’عوام میں سپیس‘ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی نے اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’یہ بھی مثبت اشارہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا کی۔‘

الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ’حلقہ بندی کے دورانیے کو کم کرنے کا مقصد جتنا جلدی ممکن ہو سکے، الیکشن کا انعقاد ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’حلقہ بندیوں کے عمل کا دورانیہ کم کرنے کے باوجود انتخابی عمل میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔ آئین سے انحراف صرف عام اںتخابات کے معاملے میں ہی نہیں ہو رہا، یہ پہلے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ہو چکا ہے۔‘ 
’الیکشن کمیشن کو الیکشن میں بااختیار تو سیاسی قوتوں ہی نے بنایا تھا۔ اب اس پر دباؤ آ رہا ہے تو وہ اس کے تابع حلقہ بندیوں کی حتمی تاریخ میں تو کمی کر رہا ہے مگر انتخابات فروری سے پہلے کروانے کو تیار نہیں۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’14 دن کا فرق انتخابی شیڈول پر اثرانداز نہیں ہو گا اور الیکشن فروری کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں ہی ہوں گے۔‘
سلمان غنی کے بقول ’سیاسی جماعتیں سپیس بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کا یہ سب اختیارات دیے ہیں۔ پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے گزشتہ پانچ برس میں اقتدار کو انجوائے کیا ہے لیکن اب یہ عوام میں جانے سے خوفزدہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ سب کچھ ایجنڈے کے مطابق چل رہا ہے۔ تحریک انصاف نے مردم شماری اپنے دور میں مکمل کر کے بروقت حلقہ بندیاں کیوں یقینی نہیں بنائیں۔ اس کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ اب یہ جماعتیں آئینی مدت کی بات کر رہی ہیں۔ یہ کام پہلے ہو جاتا تو الیکشن مزید تاخیر کا شکار نہ ہوتا۔‘

’اجتماعی حکومت کا تجربہ کامیاب نہیں ہے‘

سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’یہ جو اجتماعی حکومت کا تجربہ کیا گیا ہے، اس سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آگے الیکشن میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ملکی مسائل صرف وہی حکومت حل کر سکتی ہے جس کے پاس واضح اور بھاری مینڈیٹ ہو۔‘
’اس وقت اصل مسئلہ مہنگائی کا ہے اور یہ تمام سیاسی جماعتیں اس سے لاتعلق ہیں۔ انہوں نے ماضی میں جو کیا ہے، اس کی وجہ سے یہ عوامی احتجاجوں میں شامل ہونے سے کترا رہے ہیں۔‘
پاکستان میں انتخابی عمل اور جمہوریت پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے دورانیے میں 14 دن کی کمی کی ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ پہلے جس تاریخ کو الیکشن ہونا تھے اس سے دو ہفتے قبل الیکشن ہو جائیں گے۔‘
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’حلقہ بندیوں کے بعد دو ماہ ہونے چاہییں۔ اس لیے میرا خیال یہی ہے کہ عام انتخابات جنوری کے آخری یا فروری کے پہلے ہفتے میں ہوں گے۔‘

’سپریم کورٹ کورٹ مداخلت کر سکتی ہے‘

انہوں نے حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کے حکم کو برقرار رکھنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ ’اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کیس کو بھی ٹیک اپ کرتی ہے یا نہیں۔ مجھے لگتا وہ اس کیس کو ٹیک اپ کر کے شاید یہ حکم دے کہ الیکشن 90 روز میں ہی کرائے جائیں۔‘
سینیئر سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کین جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے دورانیے کو کچھ کم کرنے کا مقصد یہی ہے کہ موجودہ حالات میں نگران سیٹ اپ زیادہ طویل عرصے تک برقرار رکھنا آسان نہیں ہو گا۔‘
وجاہت مسعود کے خیال میں عام انتخابات فروری میں ہونے کا امکان ہے۔ اس سے قبل بظاہر مشکل ہے۔ جلد الیکشن سے مسلم لیگ نواز خوفزدہ ہے لیکن تحریک انصاف بھی اب کی بار پہلے جیسا پرفارم نہیں کر پائے گی۔‘

شیئر: