Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رہائی ملنے پر ’گھر میں مٹھائی کا انتظام‘ لیکن پرویز الٰہی کو گرفتاری کا ڈر

سابق وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی لاہور ہائی کورٹ میں تین دن کی عدالتی سماعتوں کے بعد رہائی ملتے ہی ایک مرتبہ پھر ڈرامائی انداز میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ اس مرتبہ اُنہیں اسلام آباد کی پولیس نے گرفتار کیا ہے جو لاہور ہائی کورٹ کی قانونی حدود میں نہیں آتی۔
چوہدری پرویز الٰہی گذشتہ تین مہینے سے گرفتار ہیں، ان کی پہلی گرفتاری محکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے دو جون کو عمل میں لائی گئی تھی جبکہ آخری بار گرفتاری اڈیالہ جیل کے باہر دو ہفتے پہلے ہوئی تھی جب نیب نے انہیں کرپشن کے ایک مقدمے میں جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد حراست میں لیا تھا۔
تحریک انصاف کے صدر کو اس دوران دیگر مقدمات میں بھی نامزد کیا گیا۔
نیب کا الزام ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں اپنے آبائی ضلع میں 116 ترقیاتی سکیموں کی منظوری اور من پسند ٹھیکیداروں کو نوازا اور رشوت لی۔
اس مقدمے میں مونس الٰہی بھی نامزد ہیں جبکہ ایک اور ملزم عظمت حیات بھی گرفتار ہیں۔ نیب نے چوہدری پرویز الٰہی کو گرفتار کرنے کے بعد ان کا عدالت سے ریمانڈ لے رکھا تھا اور ان کے ریمانڈ کو 18 روز گزر چکے ہیں۔
اسی دوران انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی کہ ان کی گرفتاری غیر قانونی ہے کیونکہ اسی عدالت نے انہیں کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرنے سے روک رکھا ہے۔
بدھ 30 اگست کو ان کا کیس لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس امجد رفیق کے پاس سماعت کے لیے مقرر ہوا جنہوں نے پہلے ہی اُنہیں گرفتار نہ کرنے کے احکامات جاری کر رکھے تھے۔
پہلے روز عدالت نے نیب کو نوٹس جاری کیا اور ایک ہی روز بعد کیس کی دوبارہ سماعت رکھی۔ مختصر سماعت میں عدالت نے پرویز الٰہی کو دوپہر دو بجے پیش کرنے کے حکم دیا تاہم نیب کی پراسیکیوشن ٹیم نے عدالت کو بتایا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پرویز الٰہی کو پیش کرنا ممکن نہیں۔

جمعے کے روز چوہدری پرویز الٰہی کو بالاخر جسٹس امجد رفیق کی عدالت میں پیش کردیا گیا (فوٹو: سکرین گریب)

عدالت نے افسران کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا تو جمعے کو صبح دس بجے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی یقین دہانی پر کیس سماعت ملتوی کر دی گئی۔

آج ہائی کورٹ میں کیا ہوا؟

جمعے کے روز چوہدری پرویز الٰہی کو بالاخر جسٹس امجد رفیق کی عدالت میں پیش کردیا گیا۔ نیب نے عدالت کو بتایا کہ پرویز الٰہی پر بڑے سنگین الزامات ہیں جن کی تفتیش ہو رہی ہے۔
تاہم عدالت نے اپنے سابقہ حکم کی پاسداری کی بات کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا اور یہ بھی کہا کہ انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
عدالتی حکم سننے کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کے چہرے پر کچھ اطمینان نظر آیا تاہم انہیں اس بات کا خدشہ بار بار تنگ کر رہا تھا کہ انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ وہ اس وقت تک کمرہ عدالت میں بیٹھے رہے جب تک عدالت کا تحریری حکم نہیں آیا۔
زبانی حکم آںے کے بعد نیب کی ٹیم عدالت سے روانہ ہونے لگی تو ان کی پولیس کے ساتھ تکرار ہو گئی کیونکہ کچھ پولیس افسران نیب ٹیم کو قائل کر رہے تھے کہ وہ ابھی رکیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پولیس ہر صورت چوہدری پرویز الٰہی کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔
نیب کی ٹیم کی روانگی کے بعد اینٹی کرپشن کی ٹیم لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئی اور اسی دوارن پولیس کی بھاری نفری ہائی کورٹ کے مرکزی دروازوں پر تعینات کر دی گئی۔
دو صفحات کا تحریری حکم نامہ ملا تو چوہدری صاحب کو وکلا نے آرڈر پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ عدالت نے ہر ادارے کو اگلی پیشی تک گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی مگر ابھی بھی مطمئن دکھائی نہیں دے رہے تھے کیوںکہ پولیس کی بھاری نفری اُنہیں کوئی اچھا شگون معلوم نہیں ہو رہی تھی۔
اس دوران پرویز الٰہی کے گرد دو افراد رہے جو ان کے گھریلو ملازم معلوم ہو رہے تھے۔ اُن میں سے ایک اُنہیں بار بار بسکٹ پیش کر رہا تھا جو چوہدری صاحب مسلسل کھا رہے تھے جبکہ دوسرا شخص ان کو بار بار موبائل فون پر کسی سے بات کروا رہا تھا۔
اسی دوران چوہدری پرویز الٰہی نے مونس الٰہی کی کال بھی سُنی۔ موبائل فون والا ملازم مبارکبادیں وصول کر رہا تھا اور بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ ’گھر پہنچیں وہاں مٹھائی کا انتظام ہو گا۔‘

ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کو چند اہلکار بازو اور ٹانگوں سے اُٹھا کر لے کر جا رہے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

عدالتی حکم نامے کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی کمرہ عدالت سے نہیں نکل رہے  تھے۔ ان  کے وکلا نے چیمبر میں جج صاحب کو بتایا کہ انہیں ابھی بھی خدشہ ہے کہ گرفتار کر لیے جائیں گے۔
جس پر جسٹس امجد رفیق نے ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار سکیورٹی کو اپنے چیمبر میں طلب کیا اور ہدایت کی کہ ہائیکورٹ کی سکیورٹی کے چار اہلکار اور متعلقہ ایس پی چوہدری پرویز الٰہی کو گھر تک لے کر جائیں۔
اس دوران لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشن علی ناصر رضوی اور ڈی آئی جی انویسٹیگیشن عمران کشور کر چیمبر میں بلا کر کہا گیا وہ بحفاظت چوہدری پرویز الٰہی کو گھر چھور کر آئیں۔
عدالت نے ایڈشنل رجسٹرار سکیورٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ پولیس کے ساتھ اُس وقت تک کوآرڈینیٹ کرتے رہیں جب تک پرویز الٰہی اپنے گھر نہیں پہنچ جاتے اور ساتھ یہ بھی ہدایت کی تھی کہ اُنہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
مکمل تسلّی کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کمرۂِ عدالت سے نکلے اور پیدل گیٹ تک اپنی گاڑی میں پہنچے۔ اپنی رہائش گاہ ظہور الٰہی روڑ سے بمشکل 500 میٹر پہلے ایف سی کالج نہر کے پُل پر ان کی گاڑی کو روک لیا گیا اور اسلام آباد پولیس کی ٹیم نے انہیں گاڑی سے زبردستی نکال کر گرفتار کر لیا۔
ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کو چند اہلکار بازو اور ٹانگوں سے اُٹھا کر لے کر جا رہے ہیں جبکہ اس ویڈیو میں ڈی آئی جی آپریشن لاہور علی ناصر رضوی بے بسی سے اُن اہلکاروں سے پوچھ رہے ہیں کہ ’کیا تم لوگوں کے پاس کوئی آرڈر ہے؟‘ تاہم ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیتا۔
جون کی دو تاریخ کو جب چوہدری پرویز الٰہی کو گرفتار کیا گیا تھا تو وہ اس وقت وہ اپنے گھر سے محض 100 میٹر کی دوری پر اس ظہور الٰہی روڈ پر تھے اور اُنہیں گاڑی کے شیشے توڑ کر نکالا گیا تھا۔

شیئر: