Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز الٰہی کی سیاسی زندگی کی ’سب سے بڑی مشکلات‘ کب ختم ہوں گی؟

چوہدری پرویز الٰہی پر اب تک نو مقدمات درج کیے گئے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان میں سیاست تقریباً یک طرفہ ہوچکی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حالات 2018 کے انتخابات سے پہلے والے ہو گئے ہیں، اس وقت بھی سیاست تقریباً یک طرفہ تھی۔ البتہ دونوں حالات کے سیاق و سباق فرق ہیں۔
تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی بیشتر قیادت دباؤ یا بغیر دباؤ کے پارٹی سے الگ ہو چکی ہے۔ صرف چند ایک رہنما ہیں جو ابھی تک اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پارٹی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ ان کی حراست کو تقریباً ایک مہینہ مکمل ہونے کو ہے۔
ایک طرف عدالتیں انہیں رہا کرتی ہیں تو انتظامیہ ان کو کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیتی ہے۔ 26 جون کو ایف آئی اے نے ان کو آخری گرفتار شدہ مقدمے میں عدالت پیش کیا تو جج نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جیل بھیج دیا۔
پرویز الٰہی کے وکلا نے ان کی ضمانت کی درخواست ایک مرتبہ پھر دائر کر دی ہے جبکہ دوسری طرف ایف آئی اے کی پراسیکیوشن برانچ نے ریمانڈ نہ دینے کے مجسٹریٹ کے فیصلے کو سیشن عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔

پرویز الٰہی پر کتنے مقدمات ہیں؟

کئی برسوں سے چوہدری پرویز الٰہی کے قانونی مشیر ایڈووکیٹ عامر سعید راں سے جب یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اب تک پرویز الٰہی پر 9 مقدمات سامنے آئے ہیں۔
تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک محکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے چھ ایف آئی آرز سامنے آئی ہیں۔ ان میں جعلی بھرتیوں، کمیشن اور رشوت کے الزامات ہیں۔ اسی طرح اب تک ایف آئی اے کی جانب سے دو مقدمات سامنے آئے ہیں جن میں منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے ہیں۔  ان پر ایک مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت بھی درج ہے۔‘
’ان تمام مقدمات میں سے صرف ایک ایف آئی اے کی دوسری سامنے آنے والی ایف آئی آر میں وہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں باقی تمام مقدمات میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے۔
عامر سعید راں کہتے ہیں کہ ’ہمارا نہیں خیال کہ چوہدری صاحب پر ان مقدمات کا سلسلہ فوری رکنے کا کوئی چانس ہے کیونکہ حکومت شفافیت کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ چوہدری پرویز الٰہی کی سیاسی زندگی میں ان پر ایسے حالات نہیں آئے اور اس سے پہلے انہوں نے ایسا وقت نہیں دیکھا۔‘
’چھوٹے موٹے سیاسی پرچے تو ہوتے رہے ہیں لیکن اتنا بڑا سیاسی انتقام کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘
خیال رہے کہ 2008 کے انتخابات میں جب ق لیگ الیکشن ہار گئی اور مسلم لیگ ن نے پنجاب میں حکومت بنائی تو پنجاب بینک کرپشن سکینڈل میں کچھ وقت کے لیے مونس الٰہی جیل گئے تھے البتہ چوہدری پرویز الٰہی پر بننے والے نیب کے مقدمے بعد میں واپس لے لیے گئے تھے۔۔

مشکلات کب ختم ہوں گی؟

جب پرویز الٰہی سے ان کی عدالتی پیشی کے موقعے پر یہ سوال پوچھا گیا تو انہوں نے دو مختلف جواب دیے۔ ایک پیشی پر جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پریس کانفرنس کا ارادہ رکھتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے تو پریس کانفرنس کرنے کا بھی ٹائم نہیں دیا جا رہا ہے۔ کوئی موقعہ ملے تو بتاوں کہ میں کیا چاہتا ہوں۔‘
اس سے اگلی پیشی پر جب جج سے ضمانت لی تو انہوں نے غیررسمی گفتگو میں بتایا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہی ہیں اور کہیں نہیں جا رہے۔
رویز الٰہی کی عدالتی پیشی پر البتہ اس بات کی پابندی کی جاتی ہے کہ میڈیا کو ان سے دور رکھا جائے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پرویز الٰہی کی مشکلات کے حل کے لیے ان کے سامنے جو آپشنز رکھے گئے ہیں وہ ابھی تک ان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔
مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری شافع نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ کچھ آپشنز چوہدری صاحب کے سامنے ہیں۔ ’وہ تو ان آپشنز کو لینے کے لیے تیار ہیں لیکن اصل مسئلہ مونس الٰہی کا ہے جو انہیں کسی قسم کا فیصلہ نہیں لینے دے رہا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپشنز ہیں کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے صائب آپشن تو یہ ہے کہ وہ واپس اپنی پارٹی میں آ جائیں۔ لیکن ابھی تک ان کو یہ آپشن لینے نہیں دیا جا رہا۔‘
چوہدری پرویز الٰہی کو تین دفعہ ضمانت پر رہائی ملی ہے تاہم ہر مرتبہ عملی رہائی سے قبل کی کاغذی رہائی کے بعد ان کو کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

شیئر: