Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اشرافیہ کو کون پوچھے گا؟ ماریہ میمن کا کالم

ملک کے بڑے صنعت کار، ماہرین اور ٹیکنوکریٹس اب کابینہ میں ہیں اور صرف بیانات کے ذریعے ہی معیشت بحال کرنے کے خواب دکھا رہے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)
ملک اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ نازک دور تو ہمیشہ سے ہم سنتے آئے ہیں مگر اس مرتبہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کی بنیادیں تک ہل چکی ہیں۔ ملکی اقتصادی صورتحال اس نہج پر ہے کہ اول تو ملک میں بنیادی ضروریات یعنی اناج، چینی اور دیگر اشیا کی کمیابی رہتی ہے، اور اگر یہ اشیا میسر ہوں بھی تو ڈالر نہیں ملتا جس کے بعد تیل کا مسئلہ بن جاتا ہے، تیل ہو تو گیس نہیں ہوتی، اور اگر توانائی ہو بھی تو عوام کی جیب میں پیسے نہیں ہوتے۔
وہ عوام جو اب اس مخمصے کا شکار ہیں کہ بچوں کو سکول بھیجیں یا بجلی کا بل دیں، وہ حیرت سے ملک کی اشرافیہ کو دیکھتے ہیں جو بدستور عوام کے مسائل سے بے خبر اپنی طاقت اور اختیار کو بڑھانے کے لیے ابھی بھی سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔
سب سے پہلے کاروباری طبقے کو دیکھیے۔ لائسنسوں، رعایت اور مراعات کے بل بوتے پر ترقی کرنے والے اب سر جوڑ کر بند کمروں میں ملک کی ترقی کے حل پیش کر رہے ہیں۔ ملک کے بڑے صنعت کار، ماہرین اور ٹیکنوکریٹس اب کابینہ میں ہیں اور صرف بیانات کے ذریعے ہی معیشت بحال کرنے کے خواب دکھا رہے ہیں۔ ملک کی ٹیکس کلیکشن خطے میں سب سے کم ہے، اکثریتی ٹیکس بالواسطہ اکٹھا ہوتا ہے یا پھر تنخواہ دار طبقے سے کھینچ لیا جاتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں سنا کہ مقتدر حلقوں سے لاہور اور کراچی کے کاروباری طبقے کی میٹنگ ہوئی ہو اور باہر آ کر یہ اعلان سامنے آیا ہو کہ اب بڑے بڑے پلازوں اور مارکیٹوں سے دوگنا ٹیکس اکٹھا ہو گا۔ ہمیشہ ذکر مزید مراعات کا ہی ہوتا ہے۔
یہی اشرافیہ اپنے اضافی پیسے کو کبھی پراپرٹی میں انویسٹ کرتی ہے تو کبھی ڈالروں میں، اور مہنگائی کا بوجھ عوام اٹھاتے ہیں۔ اشرافیہ کا چہرہ سیاست دان ہیں۔ سیاست دانوں کے لیے سیاسی حالات خراب بھی ہو تو بھرپور چاندی ہوتی ہے۔
جو جہاں پر ہے وہاں سے ہی اپنے لیے وسائل کا بندوبست جاری رکھتا ہے۔ چئیرمین سینیٹ نے جاتے جاتے اپنے عہدے کے ختم ہونے کے بعد مراعات در مراعات کی کوشش کی تو صدر مملکت بھی پیچھے نہیں رہے۔ حکومت کے آخری دنوں میں اراکین پارلیمنٹ کو کھل کو ترقیاتی بجٹ دیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی سکیموں کا ترقیاتی بجٹ آخر میں من پسند ٹھیکیداروں سے ہوتا ہوا اسی سیاسی دھارے میں شامل ہو جاتا ہے جو بجٹ کو منظور کرنے والے ہوتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان سمیت چھوٹے صوبوں میں سرکاری وسائل کے بے جا استعمال کی اب کہانیاں نہ جھٹلائی جاتی ہیں اور نہ ان کا کوئی اثر ہوتا ہے۔

تیل ہو تو گیس نہیں ہوتی، اور اگر توانائی ہو بھی تو عوام کی جیب میں پیسے نہیں ہوتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاست دانوں پہ تنقید کرنا شاید آسان ہے اس لیے ذرائع ابلاغ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ خبروں کے مطابق ٹی وی چینلز اور اخبارات کو 16 ماہ میں 10 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ پانچ سات سالوں میں 32 ارب کی ادائیگی کا ذکر بھی ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں کس ملک میں اس طرح اشتہارات کے نام پر اربوں روپیہ بانٹا جاتا ہے۔ اس میں اشتہارات کے نام پر پیسے وصول کرنے والوں پر بھی یقیناً سوالیہ نشان ہونا چاہیے مگر کیوںکہ پارلیمنٹ بجٹ میں اس مد میں اربوں روپے مختص کرتی ہے اور وہ حکومتیں جو اخراجات کا رونا روتے نہیں تھکتیں، ان کے پاس اربوں روپیہ اشتہارات اور اپنی تعریفی کمپیین کے لیے میسر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے، اشرافیہ کا ایک طبقہ اپنا امیج بہتر کرنے کے لیے اشرافیہ کے دوسرے طبقے کو عوام کے ٹیکسوں کا اربوں روپیہ ہر برس منتقل کرتا ہے۔
اشرافیہ کی بات ہو تو عدلیہ اور انتظامیہ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس برس کی تاریخ ساز مہنگائی میں بھی سرکاری محکموں کی تنخواہ ضرور بڑھی ہے۔ ایک تو حکومت کی فیصلہ سازی سرکاری افسروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو کچھ اور کریں نہ کریں اپنے وسائل کا خوب خیال رکھتے ہیں۔
ججز کے معاملات بھی سب کی سامنے ہیں۔ کروڑوں روپے کے بلاسود قرضوں سے لے کر بعد از ریٹائرمنٹ مراعات کا ایک طویل سسلسلہ ہے جس سے عدلیہ اور انتظامیہ مستفید ہوتے ہیں۔

سیاست دانوں کے لیے سیاسی حالات خراب بھی ہو تو بھرپور چاندی ہوتی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انتظامیہ میں ہی شامل ہیں ملک کے ادارے جو اشرافیہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہیں یا پھر کبھی کچھ عرصہ کچھ حد تک کریک ڈاؤن ہوتا ہے، کچھ لوگ ریاست کی طاقت کا سامنا کرتے ہیں مگر اس کے بعد حالات پھر معمول پر آ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس اشرافیہ کو کون پوچھے گا؟ پچھلے کچھ برسوں میں جو حالات رہے ہیں ان میں اشرافیہ نے اپنے لیے حفاظت کا بھرپور انتظام رکھا ہے۔ یہ اشرافیہ ہی اپنا سفید کم اور زیادہ سیاہ دھن بیرون ملک منتقل کر کے یہ تاثر دیتی ہے کہ ملک کے حالات دگرگوں ہیں۔
غریب یا متوسط طبقے کے افراد اگر ملک سے باہر جائیں بھی تو واپس زرمبادلہ بھی بھیجتے ہیں اور ہر وقت ملک واپسی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اشرافیہ موقع کی تلاش میں رہتی ہے کہ کب سرمایے سمیت ملک سے نکل جائے۔ سوال یہ ہے وہ اشرافیہ جس کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا وہی اشرافیہ اپنی طرف سے مسائل حل کرنے کے دعوے کر رہی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اس اشرافیہ کو کب اور کون پوچھے گا؟

شیئر: