Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن میں عوام پوچھیں گے کہ ہمارے کام کیوں نہیں کیے، نگراں وزیر

نگراں وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت مدد علی سندھی نے کہا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے دوران لوگ کس کو ووٹ ڈالتے ہیں یہ تو ان کی مرضی ہے لیکن وقت آ رہا ہے کہ سیاست دانوں سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ انھوں نے ان کے کام کیوں نہیں کیے؟
اُردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں نگراں وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی نے کہا کہ ’نگراں سیٹ اپ کو طول دینے کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن انتخابات ضرور ہوں گے۔ نگراں حکومت نے کہہ دیا ہے کہ انتخابات ہوں گے تو ہوں گے۔
چالیس سال تک سندھ میں مختلف اخبارات میں بطور ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر کام کرنے والے مدد علی سندھی نے کہا ’اب انتخابات میں لوگ کس کو ووٹ دیتے یہ لوگوں کا مسئلہ ہے۔ ہم ٹیکنوکریٹ آدمی ہیں، ہم پھر چلے جائیں گے۔ ہمیں ایک دوسرے پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‘ 
انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ اور دھاندلی کی کسی کوشش سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’کوئی گڑبڑ نہیں ہو گی۔ ہمیں اچھے کی امید کرنی چاہیے اور ہمیں ایک دوسرے پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ اس ملک میں پہلے ہی عدم برداشت بہت ہے لیکن اس کے باوجود پُرامید ہوں کہ اچھا وقت آ رہا ہے۔‘  
’انتخابات کے نتیجے میں سیاست دان آئیں گے۔ عوام ان سے پوچھیں گے کہ آپ ہمارا کام کیوں نہیں کرتے تھے۔ اب یہ وقت آ رہا ہے کہ لوگ پوچھیں گے ضرور۔‘ 
’اسلام آباد کے سرکاری سکولوں کے حالات دیکھ کر دکھ اور افسوس ہوا‘
اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہونے سے متعلق مدد علی سندھی نے کہا کہ یہ پارلیمان کا فیصلہ ہے، جمہوری حکومتوں کے کسی بھی فیصلے پر میں کوئی تنقید یا تبصرہ نہیں کروں گا۔ چونکہ تعلیم کا شعبہ اب صوبوں کے پاس ہے تو یہ ان کا کام ہے کہ وہ ڈیلیور کریں۔
’میں نے جب سے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں تو اسلام آباد کے تمام سکولوں پر توجہ دینا شروع کی ہے اور اس کی شروعات میں نے ایک پرائمری سکول سے کی۔ میں ایک ایک سکول میں جا رہا ہوں۔ میں واش روم سے لے کر کلاس روم تک جاتا ہوں۔ اس سے پہلے کوئی وزیر ایسے نہیں جاتا تھا۔ جب میں نے وہاں حالات دیکھے تو مجھے دکھ اور افسوس ہوا کہ یہ کام کیوں نہیں ہوسکا۔‘

نگراں وزیر تعلیم کے مطابق پرائمری مڈل اور ہائی سکولوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے گھروں میں کوئی چیز خراب ہو جائے تو ہم فوری طور پر پلمبر کو بلاتے ہیں لیکن سکولوں میں واش رومز میں پانی نہیں، ٹوٹیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، ٹینکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں تو ہمیں اس کا احساس کرنا چاہیے کہ یہ بھی تو ہمارے ہی بچے اور بچیاں ہیں۔‘  
وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ ’ہمارے اسی فیصد بچے اور بچیاں سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں۔ ہم بھی مڈل کلاس لوگ ہیں اور نجی سکولوں کی فیسیں برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لیے بہتر ہے کہ جن تعلیمی اداروں میں ہم نے تعلیم حاصل کی۔ اپنے بچوں کے لیے بھی ان تعلیمی اداروں بالخصوص سکولوں کو بہتر کریں۔ صوبوں سے بھی کہیں گے کالجز بعد میں آتے ہیں پہلے پرائمری مڈل اور ہائی سکولوں کو بہتر کریں۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’آپ سکول میں جائیں تو بچیاں یا تو نیچے بیٹھی ہوئی ہیں یا پھر ان کے بینچز ٹوٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر کے پیچھے ٹیک تک نہیں ہے۔ آپ کس زمانے میں رہ رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ پیسے کہاں جا رہے ہیں؟
’لوگ کہتے ہیں کہ آپ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ کم از کم بنیاد تو ڈال جائیں گے۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں لوگ کہتے ہیں آپ پہلے وزیر ہیں جو اس طرح جا رہے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک کام شروع تو ہوا ہے ناں۔‘
’ڈپٹی کمشنر، ایس پی اور عثمان سپاہی کا بیٹا ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے‘
وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ ’سرکاری سکولوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں ہم نے دو طبقے پیدا کر دیے ہیں۔ ہم جب پڑھتے تھے تو ہمارے ساتھ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کا بیٹا بھی پڑھتا تھا تو مجھے یاد ہے کہ عثمان سپاہی کا بیٹا بھی پڑھتا تھا۔ ابھی تک مجھے اس کا نام یاد ہے۔ اب بڑے لوگوں کے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں جس وجہ سے سرکاری سکول ہماری ترجیحات سے نکل گئے ہیں۔‘
’ہمارے پاس ترقی کے لیے تعلیم کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہمیں غریب عوام کو تین بنیادی سہولتیں ہر صورت میں فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن میں تعلیم، صحت اور صاف پانی شامل ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ سکولوں کی حالت زار پر رپورٹ کرے تاکہ پتہ چلے کہ تعلیم کے پیسے کون کھا رہا ہے۔‘  

نگراں وزیر تعلیم کے مطابق انتخابات وقت ہر ہی ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

’یونیورسٹیاں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے دیوالیہ ہوئیں‘ 
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے ملک میں ڈالرز کی کمی کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے سکالرشپ روک دیے ہیں، لہٰذا ان سے کہا ہے کہ اگر ڈالر یا پاؤنڈ میں ادائیگی نہیں کر سکتے تو پاکستانی روپے طلبا کو دے دیے جائیں جس پر مشاورت جاری ہے۔ 
انھوں نے یونیورسٹیوں کے مالی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یونیورسٹیوں نے اپنے مسائل خود بڑھا دیے ہیں۔ ملازمین کی تعداد اتنی بڑھا دی ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اتنے ملازمین رکھنے کی ضرورت کیا تھی؟ فلاں ایم این اے، فلاں ایم پی اے، کوئی با اثر شخصیت اور ہمارے جیسے صحافیوں کی سفارشوں پر بھرتیاں ہوتی ہیں تو پھر مسائل کیوں نہیں بڑھیں گے؟ اب اس کا حل کیا ہوگا اس کے لیے یونیورسٹیوں کو سوچنا پڑے گا۔‘  
’طلبا تنظیموں کو جھگڑے ختم کرنے کے لیے آپس میں بات چیت کرنا ہوگی‘
قائداعظم یونیورسٹی میں طلبا یونین کی بحالی کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ ’طلبا یونین ہونی چاہیئں۔ اس سے فائدہ ہوگا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان یونینز کی وجہ سے جھگڑے ہو جاتے ہیں اور بات خوں ریزی تک پہنچ جاتی ہے۔ اچھی بات ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی نے فیصلہ کیا ہے لیکن بہتر ہے کہ طلبا تنظیمیں آپس میں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ جائیں اور جھگڑے روکنے کے لیے آپس میں بات چیت کر لیں۔‘  

شیئر: