پاکستان میں 12 ربیع الاول کے موقع پر مستونگ اور ہنگو میں خودکش حملوں میں 57 افراد ہلاک اور 92 زخمی ہو گئے ہیں۔
جمعے کو صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 12 ربیع الاول کے موقع پر جلوس کے لیے جمع ہونے والے افراد کے قریب خودکش حملہ ہوا جس میں کم از کم 52 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان حکومت نے صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کی ایک مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں پانچ افراد ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق دھماکہ مسجد میں جمعے کے خطبے کے دوران ہوا جس سے مسجد منہدم ہو گئی۔ اس وقت مسجد میں 30 سے 40 کے لگ بھگ نمازی موجود تھے۔
’پولیس اور جلوس کے شرکا کو ایک ساتھ نشانہ بنایا گیا‘
بلوچستان کے حکام کے مطابق خودکش حملہ جمعے کی صبح کوئٹہ سے تقریباً 50 کلومیٹر دور مستونگ کے ہیڈکوارٹر میں میونسپل کمیٹی کے دفتر کے قریب محراب روڈ پر مدینہ مسجد کے سامنے ایک میدان میں ہوا جہاں لوگ 12 ربیع الاول کے جلوس کے لیے جمع تھے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری محکمہ داخلہ بلوچستان صالح محمد ناصر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دھماکہ خودکش تھا جس میں پولیس اور جلوس کے شرکا کو ایک ساتھ نشانہ بنایا گیا۔ ڈی ایس پی نواز گشکوری پولیس اہلکاروں کے ہمراہ سیکورٹی کے لیے موجود تھے اس دوران نامعلوم خودکش حملہ آور نے ان کے قریب آ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ مرنے والوں میں ڈی ایس پی نواز گشکوری بھی شامل ہیں۔‘
آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کا کہنا ہے کہ مدینہ مسجد کے قریب چھوٹے جلوس جمع ہوگئے تھے یہاں سے مرکزی جلوس نکلنا تھا۔
ان کے مطابق ’خودکش بمبار کو روکنے کی کوشش میں ڈی ایس پی شہید ہوئے۔ دھماکے میں تین اہلکار زخمی بھی ہوئے، جلوس میں لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے جانی نقصان زیادہ ہوا۔‘
آئی جی بلوچستان کا کہنا تھا کہ اس دہشت گردی کا مقصد بلوچستان میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔
ایک عینی شاہد عطا اللہ نے بتایا کہ ’یہ مستونگ میں 12 ربیع الاول کا مرکزی جلوس تھا جس کے لیے ضلع بھر سے دو سے تین ہزار لوگ جمع ہو چکے تھے۔ جلوس 11 بجے شروع ہونا تھا تاہم اس سے 10 منٹ پہلے ہی اس جگہ دھماکہ ہوا جہاں جلوس کی قیادت کرنے والے، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے افسران کھڑے تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر مستونگ عطا المنعم بھی موقع پر موجود تھے تاہم وہ بال بال بچ گئے۔‘
ایڈیشنل چیف سیکریٹری محکمہ داخلہ صالح ناصر کے مطابق خودکش حملہ آور کے ساتھ دستی بم بھی تھا جو پھٹ نہیں سکا تھا۔ بعد ازاں دستی بم کو دھماکے سے ناکارہ بناتے ہوئے ایک شخص زخمی ہوا۔
بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق ’خودکش حملہ آور پیدل تھا اور اس نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی جس میں تقریباً چار سے پانچ کلو بارودی مواد اور بال بیرنگ بھی موجود تھے۔ بال بیرنگ کے استعمال سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔‘
عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے بعد ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ جائے وقوعہ پر جسمانی اعضا بکھر گئے۔ زخمی اور مرنے والوں کے خون آلودہ پھٹے ہوئے کپڑوں اور جوتوں کا ڈھیر لگ گیا۔
دھماکے کے فوری بعد امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئیں تاہم زخمیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں بروقت ہسپتال منتقل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
عینی شاہد عبداللہ نے بتایا کہ ایمبولنسز کم پڑ گئیں جس کی وجہ سے زخمیوں کو نجی گاڑیوں اور پولیس کی موبائل میں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
’کچھ لوگ ضابطے کی کارروائی کے بغیر ہی لاشیں لے گئے‘
دھماکے کے بیشتر زخمیوں کو مستونگ کے نواب غوث بخش رئیسانی ہسپتال منتقل کیا گیا۔
ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر سعید احمد کے مطابق 80 سے زائد زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا جن میں ایک بڑی تعداد شدید زخمی ہے۔ شدید زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد کوئٹہ منتقل کر دیا گیا جبکہ معمولی زخمیوں کو مرہم پٹی کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔
ڈاکٹر سعید نے بتایا کہ ’ایک ساتھ بہت زیادہ زخمی آنے کی وجہ سے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو کام کرنے میں مشکل پیش آئی۔ لوگ بھی کافی مشتعل تھے اور ہمارے ایک سکیورٹی افسر پر تشدد بھی کیا گیا۔ اس صورتحال میں ہمارے لیے مرنے والوں اور زخمیوں کو اندراج کرنے میں بھی دقت پیش آئی۔ کچھ لوگ ضابطے کی کارروائی کے بغیر ہی اپنے پیاروں کی لاشیں لے گئے۔‘
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر مستونگ ڈاکٹر عبدالرشید محمد شہی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہلاکتوں کی تعداد 52 ہو گئی ہے اور زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔‘
تاہم بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ کیپٹن ریٹائرڈ زبیر جمالی نے اب تک 45 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، جبکہ آئی جی پولیس نے ہلاکتوں کی تعداد 30 بتائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جانی نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سارے لوگ شدید زخمی ہیں۔ انہیں لوہے کے ذرات لگے ہیں۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق کوئٹہ اور مستونگ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ مستونگ سے 58 زخمیوں کو کوئٹہ کے سول اور بولان میڈیکل ہسپتال لایا گیا جن میں سے چھ راستے میں یا پھر ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ گئے۔ پانچ زخمیوں کی موت سول ہسپتال اور ایک کی بولان میڈیکل کمپلیکس میں ہوئی۔ اس وقت 51 زخمی سول ہسپتال اور ایک بی ایم سی میں زیرعلاج ہیں۔
پولیس کے مطابق مرنے والوں میں 23 کی شناخت ہوئی ہے جن میں جلوس کی قیادت کرنے والے مسجد کے خطیب مفتی سعید احمد بھی شامل ہیں۔
مرنے والوں باقی افراد کی شناخت مزار خان، نظام، نور اللہ، ارغل، ناظم الدین، نثار احمد، شریف احمد، نصیب اللہ، نظام ، فیض سلطان، خادم حسین، سرفراز احمد، سلطان، شبیر احمد، محمد امین، میر احمد، ممتاز، کریم داد، محمد عالم، طارق اور سرفراز اسد کے ناموں سے ہوئی ہے۔ بیشتر کا تعلق مستونگ سے ہی تھا۔
’مستونگ میں دہشت گردی کا خطرہ موجود تھا‘
مستونگ کالعدم داعش اور ٹی ٹی پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ جون 2017 میں پاکستان فوج، ایف سی اور حساس اداروں نے مستونگ کے پہاڑوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن کر کے داعش کے کیمپ کو تباہ اور 12 کمانڈروں کو ہلاک کیا تھا۔
تین روز تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں پاکستان فوج کے کمانڈوز اور ہیلی کاپٹرز نے حصہ لیا تھا۔
رواں ماہ 12 ستمبر کو مستونگ میں داعش کے ایک اہم کمانڈر غلام الدین عرف شعیب کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے آپریشن میں ہلاک کیا۔
ایک انٹیلی جنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس آپریشن کے بعد مستونگ میں دہشت گردی کا خطرہ موجود تھا۔‘
آپریشن کے دو روز بعد ہی جمعیت علمائے اسلام کے سابق سینیٹرحافظ حمداللہ کو مستونگ کے علاقے چوتو میں خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا جس میں وہ اور ان کے ساتھیوں سمیت 11 افراد زخمی ہوئے۔اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی۔
مستونگ میں اس سے قبل بھی سیاسی و مذہبی اجتماعات کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ مئی 2017 میں اس وقت کے ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور جے یو آئی کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری کی گاڑی پر اس وقت خودکش حملہ ہوا جب وہ ایک مذہبی اجتماع میں شرکت کرنے پہنچے تھے۔ اس دھماکے میں 25 افراد کی موت ہوئی تھی۔
اسی طرح جولائی 2018 میں انتخابی جلسے میں خودکش حملے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 70 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔
بلوچستان کے نگراں وزیرداخلہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد زبیر جمالی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مستونگ میں پیشگی طور پر دہشت گردی کے کسی خطرے کی اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود جلوس کی سیکورٹی کے لیے انتظامات کئے گئے تھے۔ پولیس اور لیویز اہلکار تعینات تھے جبکہ جلوس کے راستوں کو بھی سیل کر دیا گیا تھا۔‘
آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور مستونگ میں ہسپتال جا کر زخمیوں کی عیادت کی۔
انہوں نے مقتول ڈی ایس پی نواز گشکوری کے جنازے میں شرکت کی جس کے بعد ان کی میت آبائی علاقے سبی روانہ کر دی گئی۔
اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی پولیس عبدالخالق شیخ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ادارے اور پولیس مزید تحقیقات کر رہے ہیں اور معلوم کیا جا رہا ہے کہ اس حملے میں کون سا طریقہ استعمال کیا گیا ہے، اور اس کی صوبے اور باقی ملک میں ہونے والوں دھماکوں سے کتنی مماثلت ہے۔ ہمیں کچھ شواہد بھی ملے ہیں جس پر کام کیا جا رہا ہے۔
آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں پہلے بھی کچھ گروہ سرگرم رہے ہیں جن میں سے کچھ سے متعلق ہمارے پاس اطلاعات تھیں اور اس پر کام بھی کیا جا رہا تھا۔
بعض اطلاعات کے مطابق حملے کی ذمہ داری کالعدم داعش نے قبول کی ہے۔ صوبائی پولیس سربراہ نے اس متعلق سوال پر بتایا کہ ماضی میں داعش نے اس علاقے میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم تفتیش سے پہلے یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس حملے میں کونسا گروپ ملوث ہے۔
آئی جی پولیس نے کہا کہ خودکش کے سامنے پولیس اہلکار اپنی جان کی قربانی دے سکتے ہیں۔ ڈی ایس پی نے حملہ آور کو جلوس کے شروع میں روک لیا مگر لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکورٹی لیپس سے متعلق بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوں نے لکھا کہ ’بیرونی آشیرباد سے عناصر بلوچستان کا امن اور مذہبی ہم آہنگی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔‘
جان اچکزئی نے کہا کہ ’وزیراعلٰی میر علی مردان نے واقعے کے پیچھے ماسٹر مائنڈ اور اس کے ساتھیوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لیے سکیورٹی محکموں کو ہدایت جاری کی ہے۔ بلوچستان حکومت زخمی ہونے والے افراد کو مکمل علاج معالجے کی سہولت دے گی۔‘
ہنگو میں مسجد میں خودکش حملہ
خیبر پختونخوا کے نگراں وزیر اطلاعات خیبر بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے ہنگو دوابہ میں مسجد میں دھماکے کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہنگو میں پولیس کی بروقت کارروائی سے بھاری نقصان سے نمازی محفوظ رہے۔
’گاڑی میں سوار دو خودکش حملہ آور مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہنچے تھے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس اہلکاروں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک حملہ آور مسجد سے باہر ہلاک کر دیا گیا۔‘
نگراں وزیر اطلاعات کے مطابق ’فائرنگ کے تبادلہ میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ فائرنگ کی آواز سن کر بیشتر نمازی مسجد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ دوسرا خودکش حملہ آور مسجد میں گھسنے میں کامیاب ہوا۔ اگر بروقت حملہ آوروں کو نہ روکا جاتا تو جانی نقصان کا اندیشہ زیادہ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اب تک پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 12 افراد زخمی ہیں، زخمیوں کو طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔