Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کریک ڈاؤن کے اثرات: کراچی کی بولٹن مارکیٹ میں غیرقانونی کرنسی کا کاروبار کم ہونے لگا

کرنسی کے غیرقانونی کاروبار کے خلاف تمام ادارے متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ملکی و غیرملکی کرنسی اور پرائز بانڈز کی خرید و فروخت کی سب سے بڑی بولٹن مارکیٹ میں ان دنوں ویرانی چھائی ہوئی ہے۔
اس بازار میں 100 سے زیادہ دکانوں اور کاؤنٹرز پر کرنسی کی تبدیلی اور پرائز بانڈز کی خرید و فروخت کا کام ہوتا ہے مگر حکومت کی جانب سے ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کو روکنے کے لیے ہونے والے اقدامات اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کی نئی شرائط کے باعث بڑے ڈیلرز کے علاوہ بولٹن مارکیٹ کے یہ چھوٹے دکان دار بھی متاثر ہوئے ہیں۔
مذکورہ اقدامات کے بعد ان دکانداروں اور ڈیلرز کے لیے کرنسی بالخصوص ڈالر کی خرید و فروخت کرنا ممکن نہیں رہا۔
دوسری جانب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی معاشی معاملات میں ذاتی دلچسپی کی وجہ سے دیگر ادارے بھی متحرک ہوگئے ہیں اور معیشت کو مبینہ طور پر نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف کریک ڈاون تیز کر دیا گیا ہے۔
بولٹن مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ ’غیر قانونی طور پر کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن پرانے نوٹ تبدیل کروانے یا دیگر ملکوں کی کرنسی کو تبدیل کروانے والوں کو یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کہیں سے بھی کرنسی تبدیل کروا لیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پرائز بانڈز کا کام تو ویسے ہی ختم ہو گیا ہے اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو آنے والے دنوں میں یہاں کام کرنے والے تمام لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔
کراچی کا اولڈ سٹی ایریا شہر کا اہم تجارتی مرکز ہے۔ یہاں برقی مصنوعات سے لے کر کریانے کے سامان اور میڈیسن مارکیٹ سمیت کئی ہول سیل مارکیٹیں موجود ہیں۔

کراچی کا اولڈ سٹی ایریا شہر کا اہم تجارتی مرکز ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

اس مارکیٹ کے درمیان دکانوں اور فٹ پاتھ پر کام کرنے والے بیسیوں ڈیلر ایسے ہیں جو پرانے نوٹ تبدیل کرنے، پرائزبانڈز کی خرید و فروخت کرنے کے علاوہ غیرملکی کرنسی کو کچھ منافع رکھ کر روپے میں تبدیل کرنے کا کام کرتے ہیں۔
مارکیٹ کے آسان طریقہ کار اور وقت کی بچت کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد اس کا رخ کرتی ہے۔
منی چینجرز اور بینکوں میں بڑی سطح پر کرنسی کا کاروبار ہوتا ہے وہیں شہر کی اس مارکیٹ میں نچلی سطح پر یہ کاروبار ہوتا ہے۔ اس مارکیٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے اس کا تعین اب تک نہیں ہوسکا۔ 
زبیر حنیف اولڈ سٹی ایریا چھانٹی کے سامنے فٹ پاتھ پر پرائز بانڈ اور نوٹوں کی تبدیلی کا کام ایک عرصے سے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافے اور کمی سے اس مارکیٹ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں کام کرنے والے لوگ نچلی سطح پر یہ کام کر رہے ہیں۔ پرانے پھٹے نوٹوں کو تبدیل کرنے میں 100 روپے پر پندرہ سے بیس روپے کی بچت ہوتی ہے۔ اسی طرح بڑے نوٹ پر کبھی 100 روپے بھی بچ جاتے ہیں۔ دن میں 25 سے 30 لوگ بھی نوٹ تبدیل کروالیں تو ہماری اچھی آمدنی ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے ماضی کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کبھی اس مارکیٹ میں اتنا کام ہوتا تھا کہ ہم لوگوں کو منع کر دیا کرتے تھے۔ اور اب ویرانی چھائی ہوئی ہے۔‘

بولٹن مارکیٹ میں نچلی سطح پر کرنسی کا کاروبار ہوتا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

زبیرک ے کاروبار میں مندی کی بنیادی وجہ پرائز بانڈز کا کام کم ہو جانا ہے۔ اس کے علاوہ کرنسی کی خرید و فروخت پر سختی کی وجہ سے بھی کام متاثر ہوا ہے۔
زبیر حنیف کا کہنا ہے کہ ’اس مارکیٹ میں لوگ سعودی ریال، امریکی ڈالر، برطانوی پاؤنڈ سمیت مختلف ممالک کی کرنسی کے چھوٹے نوٹ تبدیل کروانے آیا کرتے تھے لیکن اب ایک مہینے سے کام بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جمعے کے روز سندھ میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر واضح پیغام دیا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دیگر سرکاری محکمے غیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ کارروائیاں جاری رکھیں گے تاکہ وسائل کی چوری اور ان سرگرمیوں کی وجہ سے ملک کو ہونے والے معاشی نقصانات کو روکا جا سکے۔‘
آرمی چیف اس سے قبل بھی اس طرح کے بیانات دے چکے ہیں جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سمیت دیگر اداروں نے کارروائیاں تیز کی ہیں اور ہنڈی حوالہ اور دیگر غیر قانونی ذریعوں سے کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ 
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کا مؤقف ہے کہ ’پاکستان میں قانونی طور پر کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ قوانین کی روشنی میں کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ملکی و غیر ملکی کرنسی کا لین دین کر سکتے ہیں۔‘
سیکریٹری ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ’بنا دستاویزات کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ ڈالر سمیت کرنسی کی بیرون ملک سمگلنگ کی بلیک مارکیٹ کا خاتمہ ہو۔‘

بنا دستاویزات کرنسی کے کاروبار کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

معاشی امور کے ماہر وکیل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ’جنرل عاصم منیر کی جانب سے واضح پیغام کے بعد ادارے متحرک ہوگئے ہیں، ملک بھر میں ہنڈی حوالہ اور ڈالر کی بلیک مارکیٹ چلانے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ ہفتے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں فوج کے سپہ سالار نے واضح پیغام دیا ہے کہ ’ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والوں سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ اس سے ملک میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو حوصلہ ملے گا اور لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا۔‘  

شیئر: