دوسری جانب عسکریت پسند تنظیم حماس نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تو یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کو مار دیا جائے گا۔
جنگ کے تیسرے دن بھی اسرائیل کے مختلف علاقوں میں لاشوں کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔ ریسکیو ورکرز کو بیری کے علاقے میں تقریباً 100 لاشیں ملی ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے بعد لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔
حماس اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں نے کہا ہے کہ 130 سے زیادہ اسرائیلی فوجی اور شہری ان کے پاس ہیں۔
نئے حملوں سے بچنے کے لیے اسرائیل نے ٹینکس سرحد پر پہنچا دیے ہیں جبکہ ڈرونز نگرانی کر رہے ہیں۔
حکام نے غزہ کے قریبی علاقوں سے ہزاروں اسرائیلوں کو نکال لیا ہے اور تین لاکھ سابق فوجیوں کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا ہے کہ ’ہم نے حماس پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ جو کرنے جا رہے ہیں وہ نسلوں تک ان کو یاد رہے گا۔‘
سرحد کے قریب اسرائیل نے اضافی فوج تو تعینات کر دی ہے تاہم ایک بڑا سوال یہ ہے کہ آیا اسرائیل غزہ میں زمینی کارروائی کا آغاز کرے گا۔ اسرائیل نے آخری زمینی کارروائی 2014 میں کی تھی۔
مقامی میڈیا کے مطابق سنیچر کو کیے گئے حملے میں 73 فوجیوں سمیت اسرائیل کے 900 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ میں حکام نے کہا ہے کہ اب تک 680 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے حماس کے سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دونوں طرف ہزاروں افراد زخمی ہیں۔
پیر کی شام کو اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ کے رہائشی اور کمرشل علاقے رمل پر شدید بمباری کی تھی۔
مقامی ہسپتال النجر کے ایک ڈاکٹر کے مطابق رفح میں اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت 19 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیل کے فضائی حملوں کے جواب میں حماس کے مسلح ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ جب بھی اسرائیل غزہ میں شہریوں کو ان کے گھروں میں نشانہ بنائے گا تو ان کی تنظیم ’بغیر پیشگی اطلاع‘ یرغمالیوں میں سے ایک کو کسی بھی وقت مار دے گی۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ الی کوہن نے حماس کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس جنگی جرم کو معاف نہیں کیا جائے گا۔‘
یرغمال بنائے گئے اور لاپتہ افراد کے معاملے کے لیے نیتن یاہو نے ایک سابق فوجی کمانڈر کو مقرر کر دیا ہے۔