Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کی وطن واپسی کی روایت، ’مخالفین بھی چاہتے کہ وہ آئیں‘

پارٹی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر اس مرتبہ زیادہ زور و شور سے تیاریاں ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارنے کے بعد 21 اکتوبر کو لاہور پہنچ رہے ہیں۔ نواز شریف کے سیاسی کیریئر میں یہ تیسری مرتبہ ہے کہ وہ عملی سیاست سے دور رہنے کے بعد اپنی جماعت کی سیاست بچانے کی کوشش کرنے کے لیے وطن واپس آ رہے ہیں۔
تاہم گزشتہ ادوار میں نواز شریف کی دو مرتبہ واپسی ان کے لیے پریشانی کا باعث رہی۔ ستمبر 2007  میں جب انہوں نے وطن واپس آنے کی کوشش کی تو انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے ہی واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا جبکہ جولائی 2018 میں انہیں بیٹی مریم نواز کے ہمراہ ایئر پورٹ سے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
نواز شریف کے وطن سے جانے اور پھر وطن واپسی کی روایت کیا رہی اور ان کو کن مشکلات کا سامنا رہا ہے، اس حوالے سے اردو نیوز نے جماعت کے رہنماؤں سمیت سینیئر صحافیوں سے آنکھوں دیکھا حال جاننے کی کوشش کی ہے۔ 
زمانہ طالب علمی سے پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ منسلک رہنے والے راجہ ظفر الحق دونوں مرتبہ نواز شریف کے استقبالی قافلے میں پیش پیش تھے۔ اس وقت کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ’پہلے دو دفعہ جب نواز شریف آئے تھے میں بھی ایئر پورٹ پر استقبال کے لیے گیا تھا اور باقی لوگ بھی موجود تھے لیکن  اس بار ان کی واپسی کے لیے پارٹی پہلے سے زیادہ منظم ہے اور تیار ہے۔‘
نواز شریف کو ایئر پورٹ سے ڈی پورٹ کرنے سے متعلق راجہ ظفر الحق نے اردو نیوز کو بتایا کہ جماعت کے قائد کو سعودی عرب، قطر اور دیگر ممالک کے کہنے پر واپس بھیجا گیا تھا۔
’میرا خیال ہے کہ جب نواز شریف کو پہلی بار ڈی پورٹ کیا گیا تو سعودی عرب اور قطر کی طرف سے مطالبہ تھا کہ جیل میں رکھنے کے بجائے ان کے حوالے کیا جائے۔ سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ ہمارے دوست ہیں اور ہم ان کو رکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے جہاز میں مذاکرات بھی ہوئے اور بہت دیر بھی  ہو رہی تھی۔‘
ان کے بقول سعودی عرب نے وارننگ دی تھی کہ ’اگر آپ 15 رمضان سے قبل انہیں ہمارے حوالے نہیں کرتے تو ہم دوبارہ آپ سے مطالبہ ہی نہیں کریں گے۔ اس لیے انہیں دوبارہ سعودی روانہ کیا گیا۔‘
ان کے مطابق اُس وقت نواز شریف کی گرفتاری کے امکانات نہیں تھے۔

نواز شریف طویل عرصہ لندن میں گزارنے کے بعد 21 اکتوبر کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

’سنہ 2007 میں استقبال کے لیے زیادہ لوگ نہیں نکلے‘

راجہ ظفر الحق کے مطابق نواز شریف کو لینے کے لیے ایک بڑی تعداد ایئر پورٹ پر پہنچی تھی لیکن سینیئر صحافی افتخار احمد اس تأثر کو رد کرتے ہیں۔
افتخار احمد نے بتایا ’سنہ 2007 میں ان کو لینے کے لیے لوگ نہیں نکلے۔ اس وقت کا جو ماحول تھا، ان کی جو مخالفت تھی، جو شخص اس وقت سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا۔ اس نے نواز شریف کی واپسی کو کامیاب ہونے ہی نہیں دیا۔‘
ان کے بقول اس وقت پارٹی کی اتنی تیاری نہیں تھی کیونکہ ’جس شخص نے بغاوت کی تھی اس نے پارٹی کو تیاریوں کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔‘
12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کا تختہ الٹنے کے بعد ان پر جو مقدمات بنائے گئے تھے ان پر تمام سزائیں راتوں رات منسوخ کر دی گئیں اور قائد مسلم لیگ کو جلا وطن کر دیا گیا تھا۔
نواز شریف کی جلا وطنی کے دوران ان کی موحوم اہلیہ کلثوم نواز اور صاحبزادی مریم نواز نے سیاسی باگ ڈور سنبھالی لیکن سنہ 2002 میں منعقد ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کر سکی۔

بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت 

سنہ 2006 میں انہوں نے لندن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات کی اور اسی ملاقات میں میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کیے۔ جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ محمد نواز شریف نے ستمبر2007 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وطن واپسی کی پہلی کوشش کی۔ 
10 ستمبر 2007 میں سات سال تک جلاوطن رہنے کے بعد  پی آئی اے کی ایک پرواز کے ذریعے لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ تاہم انہیں جہاز سے اترنے کا موقع تک نہ ملا اور انہیں ایک بار پھر سعودی عرب واپس جانا پڑا۔
نواز شریف کا خصوصی طیارہ جب واپس جدہ ایئر پورٹ پر اترا تو انہیں جدہ میں شریف خاندان کی ذاتی رہائش گاہ ’شریف محل‘ میں منتقل کر دیا گیا۔ 
سنہ 2007 میں  نواز شریف کی وطن واپسی پر تبصرہ کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا جس طرح کے واقعات نو مئی 2023 کو پیش آئے یہ اُس وقت بھی ہو سکتے تھے۔
’اگر ن لیگ سیاسی طور پر مزاحمت کرتی، پتھراؤ کیا جاتا یا لاٹھی چلتی تو یہی واقعہ ہوتا جو ہم آج کہہ رہے ہیں کہ نہیں ہونا چاہیے تھا، وہ تب بھی ہو سکتا تھا۔‘
انہوں نے ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہا ’پارٹی کے ایک چھوٹے رہنما کے ساتھ چھوٹا سا گروپ ایئر پورٹ کے اُس حصے تک جانے میں کامیاب ہوا تھا جہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جب وہ ایئر پورٹ کے اس حصے میں داخل ہوئے تو انہیں گرفتار کیا گیا۔‘
نومبر 2007 میں نواز شریف نے ایک بار پھر وطن واپسی کا ارادہ کیا اور اس بار وہ کامیاب ٹھہرے۔
اس بار ان کے استقبال کے لیے پارٹی سپورٹرز کی ایک بڑی تعداد ایئر پورٹ پر موجود رہی۔ انہوں نے ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور الیکشن کرانے اور مشرف کی آمرانہ حکومت ختم کرنے کی مہم چلائی۔

نواز شریف 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہو گئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

’امیدیں پہلے بھی تھیں اور اب تو اور زیادہ ہیں‘

راجہ ظفر الحق اس بارے میں اپنی رائے بتاتے ہیں ’اس وقت ان سے بڑی امیدیں تھیں۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ترقیاتی سیاست کرتے ہیں۔ مہنگائی کم کرنا، سی پیک، ایٹمی دھماکے ان کی زندگی انہی خطوط کے اوپر استوار تھی۔ یہ امیدیں پہلے بھی تھیں اور اب تو اور زیادہ ہیں۔‘
ان کے بقول ’ایٹمی دھماکوں کے وقت بھی انہیں نے تقریر میں یہی کہا تھا کہ ہم نےپاکستان کو ناقابل شکست بنانا ہے اور ہم نے پاکستان کو اقتصادی طور پر بہترین منصوبوں کے ساتھ آگے لے کر چلنا ہے'
سنہ 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی کےبعد  نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اتحادی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس حکومت کے دوران بھوربن معاہدے کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔ تاہم اگست سنہ 2008 میں نواز شریف نے اتحادی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور حزب اختلاف کی کرسیوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ 
مئی سنہ  2013 میں عام انتخابات میں  پاکستان مسلم لیگ ن نے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے حکومت قائم کی لیکن اسی کے ساتھ عمران خان کی صورت میں نواز شریف کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی بتاتے ہیں ’جب وہ واپس آنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور کسی حد تک مسلم لیگ ن نے اپنا سیاسی حصہ حاصل کیا۔ 2013 کے انتخابات میں وہ وزیراعظم بن گئے۔ پنجاب کی حکومت ان کے بھائی کے پاس رہی۔‘
ان کے مطابق اس الیکشن کے بعد عمران خان کی صورت میں ان کے لئے ایک بڑا سیاسی چیلنج آج تک موجود ہے۔ 
سنہ 2013 کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نواز شریف کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا۔ چار سال کے بعد سنہ 2017 میں پانامہ پیپرز کا معاملہ سامنے آیا۔  
سپریم کورٹ نے پانامہ پیپرز پر فیصلہ سناتے ہوئے جولائی سنہ 2018 میں  نواز شریف کو نا اہل قرار دیا اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑنا پڑی۔ 

نواز شریف کی 2018 میں واپسی اور گرفتاری

اگست سنہ 2017 میں نااہلی کے بعد نواز شریف پہلے غیرملکی دورے پر لندن روانہ ہوئے جہاں انہوں نے اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کرنا تھی۔ ستمبر میں وہ پاکستان واپس آئے جبکہ اکتوبر میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔
اس دوران ان کا لندن آنا جانا رہا تاہم اس دوران قانونی جنگ بھی جاری رہی۔ ان کی دوسری باقاعدہ واپسی جولائی 2018 میں ہوئی جب وہ اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ لندن سے لاہور پہنچے۔
قومی احستاب بیورو (نیب) کی حکام نے سابق وزیراعظم اور ان کی بیٹی کو ائیر پورٹ سے ہی گرفتار کیا اور ان کے پاسپورٹ بھی قبضے میں لے لیے گئے۔ نیب کی ایک عدالت نے نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ 11 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ اسی ریفرنس میں مریم نواز کو مجموعی طور پر آٹھ برس قید کی سزا سنائی گئی۔ مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو بھی ایک سال جیل کی سزا سنائی گئی جو اس وقت جیل میں تھے۔ 

2002 کے انتخابات میں ن لیگ خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کر سکی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

اس دوران لاہور میں پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد لاہور ایئرپورٹ کے باہر موجود تھی جو اپنے رہنما کو خوش آمدید کہنے کے لیے وہاں جمع ہوئےتھے۔ کسی ممکنہ تصادم سے بچنے کے لیے سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے۔
افتخار احمد بتاتے ہیں ’2018 میں بھی یہی فیصلہ تھا، نواز شریف کو آنے ہی نہیں دیا جا رہا تھا اور جیسے ہی وہ آئے انہیں جہاز سے ہی گرفتار کیا گیا۔‘
’عموماً ایسے جہاز واپس جاتے ہیں لیکن اس بار بہت تاخیر ہوئی۔ واپس جانے والے مسافروں کو چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ نواز شریف کو ایجنسیوں کے لوگوں نے سیڑھیوں پر ہی گرفتار کر لیا۔‘

’2018 میں شدید گرفتاری ڈالی گئی، لوگوں پر تشدد بھی ہوا‘

راجہ ظفر الحق بھی اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’2018 میں ان کی شدید گرفتاری ڈالی گئی۔ لوگوں پر تشدد بھی کیا گیا تھا۔ وہ منظر بھولنے والا نہیں ہے۔‘
اس کے بعد نواز شریف اور مریم نوز کو اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔ تاہم ستمبر 2018 میں نواز شریف کو ان کی بیٹی اور داماد کیپٹن صفدر سمیت اس وقت رہا کیا گیا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ معطل کیا۔ 
دسمبر 2018 میں انہیں العزیزیہ ریفرنس میں کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کیا گیا جبکہ اکتوبر 2019 میں ان کو طبی بنیادوں پر ضمانت ملی۔ نومبر 2019 میں نواز شریف کو ایئر ایمبولنس کے ذریعے لندن روانہ کیا گیا جس کے بعد ان کی واپسی نہیں ہو سکی۔
اب 21 اکتوبر 2023 کو نواز شریف نے وطن واپسی کا ارادہ کیا ہے اور پارٹی سطح پر ان کے استقبال کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔

’اگر کوئی حل نہ ہوا تو جیل جانا پڑے گا‘

نواز شریف کی تیسری مرتبہ باقاعدہ واپسی سے متعلق صحافی مجیب الرحمان شامی بتاتے ہیں ’اُس وقت تو پرویز مشرف نہیں چاہتے تھے کہ وہ واپس آئیں۔ اب تو ان کے مخالفین بھی چاہتے ہیں کہ وہ واپس آئیں۔ ان کی  واپسی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ آنے کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوگا یہ ایک الگ بحث ہے۔‘
تاہم مجیب الرحمان شامی نے ان کی واپسی کے متعلق چند سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا نواز شریف کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا، کیا گرفتار ہونا ہو گا، کیا وہ ایک آزاد شہری کی طرح مینار پاکستان میں خطاب کریں گے؟
’یہ آنے کے بعد ہی طے ہو سکتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ اس بار نہ تو کوئی رکاوٹ ہے اور نہ کسی کی خواہش ہے کہ وہ نہ آئیں۔‘
راجہ ظفر الحق نے ان سوالوں کے جواب میں کہا ’پہلے دو مرتبہ کے مقابلے میں اس بار نواز شریف کی واپسی زیادہ متحرک سیاسی سرگرمی معلوم ہوتی ہے۔ وہ آتے ہی عدالت میں جائیں گے، لیگل ٹیم نے تیاری کی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی عوام کوئی پروگرام چاتے ہیں تاکہ معاملات سیدھے ہو جائیں۔‘
لیکن فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ نواز شریف کی واپسی نگران سیٹ اپ کے دور حکومت میں ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے افتخار احمد کہتے ہیں کہ ’اگر نواز شریف گھر تک پہنچتے ہیں تو انہیں اپنے اوپر مقدمات دیکھنے ہوں گے، اصل مسئلہ یہی ہوگا کہ عدالتی مسائل کیسے حل کریں گے؟ اگران کے پاس کوئی حل نہیں ہو گا تو جیل جانا ناگزیر ہے۔‘
افتخار احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس یا پندرہ سال پہلے کے مقابلے میں آج کا پاکستان بہت سنگین ڈگر پر کھڑا ہے۔
’ہم ہر طرف سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ بہت بنیادی چیزوں کو طے کرنا ہے۔ یہ مسائل تقریر سننے یا کرنے سے حل نہیں ہوں گے۔ ہر چیز کے بارے میں منشور دینا ہوگا کہ کیسے چیزوں کو کنٹرول کرنا ہے۔‘
سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نواز شریف کی اس بار وطن واپسی کو  گزشتہ واپسی کے مقابلے میں آسان بتاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ان کا ماننا ہے ’قانونی معاملات تو  ان کے لیے راستہ نہیں روکیں گے لیکن سیاسی طور پر اپنے لوگوں کو متحرک کرنا اور سرگرم کردار ادا کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔‘
گزشتہ ادوار کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ پہلے قانونی، عدالتی اور حکومتی نوعیت کے چیلنجز تھے لیکن اب عدالتی سطح  پر ان کے مخالفین موجود نہیں ہیں اور  ان کی بات بھی سنی جائے گی۔
’حکومتی سطح پر ان کے خلاف کوئی شخص  برسراقتدار نہیں ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس وقت کسی کو دلچسپی نہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے۔ ان کے سامنے سیاسی چیلنج موجود ہے۔ انہوں نے سیاسی طور پر اپنی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک آزاد پنچھی ہیں۔‘

شیئر: