شرم و حیا کا آنچل، کھنکھناتی چوڑیاں، رنگِ حنا، ناگن زلفوں کو مقید کرنے والا مباف،برقع، عبایہ، نقاب سبھی ہوگئے کمیاب
* * * شہزاد اعظم ۔ جدہ* * *
ہماری اقدار،ہمارا کردار، ہماری روایات، ہماری ثقافت کیا تھی؟ ہمارے اسلاف کا راستہ کون سا تھا؟ ہم اپنے آپ کو اسلاف کی روایات کے امین کہتے اور کہلاتے رہے مگر جن اوصاف کے امین ہونے کا ہم دعویٰ کرتے رہے انہیں ہم نے یکسر فراموش کر دیا۔ آج ہم وہ قوم بن چکے ہیں جسے اپنے ترانے کے تمام الفاظ بھول چکے ہیں، فقط دھن یاد رہ گئی ہے۔ اللہ کریم کی ذات ِ واحد پر یقین،اُسی کا دینِ اسلام ،ایمان، امانت داری،ایفائے عہد، انصاف،اخلاقیات، اتحاد، انسانیت، اعتدال پسندی، اُردو زباں،بہبود، بھائی چارہ، پاکیزگی، پاک کمائی،تبسم، ترحم،تزکیہ،ثمرِآخرت کی فکر،جد و جہد،جذبۂ ایمانی،جائز وناجائز کا خیال، جہل سے جہاد،چشمِ بینا،چراغِ رہِ منزل،حلال کے طالب، حرام سے دور، حِلم و علم سے معمور،حق آگاہ،خواہشِ خیر اور بھلائی، خرافات سے ناآشنائی، خُلد کے تمنائی،دل اور گفتارکی نرمی ہمارے اوصاف رہے ہیں۔
ہماری ثقافت اسلاف کی اقدار،قربانی و ایثار،محبت و پیارجیسے مثالی اطوار سے مزین ہے۔ماں کی ممتا،باپ کی بُردباری، بہن کی محبت،بھائی کی عظمت،اولاد کی بے مثل تربیت ،بیوی سے حسنِ سلوک،مہمان نوازی،صلۂ رحمی،ہمسایوں سے اپنوں جیسا برتاؤ اور ماتحتوںسے بھائیوں جیسا رویہ رہی ہے۔ پاکستانیوں کی ثقافت صرف کھسے تک ہی محدود نہیںبلکہ شرم و حیا کا آنچل،صرف شوہر کے لئے جھنجھناتی پایل،کلائی میں کھنکھناتی چوڑیاں،ہاتھوں اور پیروں پر رنگِ حنا،ناک میں لونگ، آنکھوں میں کجرا،کانوں میں بالیاں، ہونٹوں پہ لالیاں، دانتوں کے لئے دنداسہ، ناگن زلفوں کو مقید کرنے والا مباف،جوڑا،بالوں میں پھولوں کا گجرا،ہاتھوں میں موتیے کے کنگن،انگشتِ نازک میں انگشتری، شلوار قمیص ، چوڑی دار پاجامہ ، کرتا،ساڑھی ، لاچہ، اجرک، چادر،برقع، عبایہ، نقاب، شیروانی،پاجامہ،تہ بند،چپل، دھوڑی کے جوتے،کھسے،سلیم شاہی، پشاوری چپل،چپلی کباب،سیخ،گولہ،بہاری باب،پراٹھا،کچوری،کچالو،پسندے،کوفتے،نرگسی کوفتہ،قتلمہ،پلاؤ، پائے،کڑھائی گوشت، بالٹی گوشت، نہاری، بریانی،دمپخت،حلیم،ماش کی دال، مسور کی دال اور چاول،پالک، قلفہ، بتھوا، تارامیرا،چولائی،شلجم ،چقندر، چھولیہ، چنے،پکوڑے،سموسے، تلی ہوئی مچھلی،تندور،چپاتی،قلفی،کھیر، کانجی،مرنڈہ،گجک، بتیسہ، گولہ گنڈا،پان، الائچی،گلقند،بالوشاہی، گلاب جامن، امرتی، جلیبی، اندرسے، تلوں کے لڈو، پنجیری، گجریلا،گاجر کا حلوہ، لوکی کا حلوہ، حبشی حلوہ، بیسن کا حلوہ، سوجی کا حلوہ، چنے کی دال کا حلوہ، لسی،سبز چائے، کشمیری چائے، ہریسہ، سجی، تانگہ، ریڑھا،ریڑھی، بیل گاڑی، اونٹ گاڑی، گدھاگاڑی،ماشکی، مشکیزہ، حکیم و عطار، شربتِ بزوری و زنجبار، خمیرہ مروارید و گاؤ زباں، معجون نانخواہ، اطریفل زمانی و کشنیزی،مربۂ ہڑ و مربۂ آملہ، چٹنی، اچار، بیسنی روٹی،آلو بھری روٹی، دال بھری روٹی، لکڑی اور کوئلے کی راکھ،اس میں آلو دبا کر گلانا، راکھ سے برتن اور دانت مانجھنا،دریاں، قالین، جانمازیں، ململ، لان، کھدر، لٹھا، کورا لٹھا، پردے، گاؤ تکیے،رنگین پایوں والے پیڑھے پیڑھیاں، پلنگ، بان، سرکنڈوں سے بنے موڑھے، چقیں، چٹائیاں، کچے مکان، روشندان، صحن و دالان، چوبارے، حویلیاں، زنان خانے، مردان خانے، ٹوپیاں، کلاہ، پگڑیاں،زنانہ بٹوے، امبی یا کیری، امبرس، نوررٹول،لنگڑا، سندھڑی، چونسہ وغیرہ۔ یہ ہماری متنوع اور صد رنگ ثقافت کی عکاس چند اشیاء ہیں۔
کتنا حسن ، خوبصورتی، کشش اور دلربائی ودلکشی ہے اس پاکستانی ثقافت میں۔اس کے باوجود افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اتنی مثالی اور پیاری ثقافت کو دنیا میں روشناس کرانے کی کوشش کماحقہ نہیں کی۔دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی ایک انوکھا پن پایا جاتا ہو تو اُس کی اس قدر تشہیر کی جاتی ہے کہ کرۂ ارض کے چپے چپے سے سیاح اس انوکھے پن کو دیکھنے کے لئے اُمڈ پڑتے ہیں مگر ہم نے اپنی اس دلکش ثقافت کو نہ صرف وطن کے اندر ہی قید کر دیا بلکہ اس سے ’’کھلواڑ‘‘ کرنے پر کمر بستہ ہوگئے۔’’ترقی ، جدت اور روشن خیالی‘‘جیسے خوبصورت عنوان دے کر اغیار کی نقالی کو طرۂ امتیاز بنا لیا۔ بے حیائی، بے ایمانی، بے وفائی، دروغ گوئی، وعدہ خلافی، سبز باغ دکھانے، پیسہ بٹورنے، بھتے وصول کرنے، بھائی کو بھائی سے لڑانے، فرقوں میں بٹنے، اپنی سیاسی دکانیں کھولنے اور انہیں چمکانے، ٹیڑھے منہ کر کر کے انگریزی بولنے، مغرب کی ثقافت ہی نہیں بلکہ اُن کے ’’چال چلن‘‘ کواپنا نا باعثِ افتخار سمجھنے اوراغیار کے رنگ میں رنگے جانے کو ہی ہم نے مقصدِ حیات اور کامیابی و کامرانی کا باعث سمجھ لیا۔ ہم اغیار سے مرعوب ہونے کے عادی ہوگئے۔
انگریزی بولنے والے کے لئے ہم دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے پر تُل جاتے ہیں جبکہ اردو بولنے والے کو نہ صرف ’’کم عقل، کمتر، کم علم، غیر ترقی یافتہ اور دقیانوس‘‘ سمجھتے ہیں بلکہ انہیں مزاحیہ انداز میں ہی سہی،’’بدتمیز اُردو میڈیم‘‘ کہہ کراپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ اپنے آپ کو کمتر سمجھنے اور اپنی ثقافت سے بے بہرہ ہونے کی اس سے زیادہ اور کیا مثال دی جا سکتی ہے کہ ہماری حکومت نے ہندوستان کو ’’سب سے پسندیدہ قوم‘‘ کا درجہ دیا،لالی وڈ نے بالی وڈ کی تقلید کو اپنے لئے زندگی و موت کا مسئلہ بنالیا۔
ہندوستانی ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے فحش لباس ہماری اکثر خواتین کے من پسند بن گئے،ہندوستانی ڈراموں میں پیش کی جانے والی ہندو رسمیں دیکھ کر ہمارے منہ میںپانی آنے لگا۔ ہم لوگ آج تک اپنی قومی زبان اُردو تو صحیح تلفظ تو دور کی بات ، خالص اردو بھی نہیں بول پائے مگر اغیار سے مرعوب ہونے کا عالم یہ ہے کہ ہمارے جید صحافی انٹرویو کے دوران ’’کرتوے‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ووٹوں سے منتخب رکن اسمبلی خواتین ٹی وی پر عید کے پروگرام میں بیٹھ کر’’ پاپ،وچن،شُب شُب‘‘جیسے الفاظ استعمال کرتی دیکھی اور سنی جاتی ہیں۔حتیٰ کے عوام میں شامل ایک شخص سے مہنگائی پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا تو اُس نے ’’گلابی اردو‘‘ میں جواب دیا۔قومی زبان تو وہ 65سال میں بھی نہیں سیکھ پایا مگر اُس نے ہندی کو پورے تلفظ کے ساتھ اپنایا اور ہم نے اُسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مہنگائی کا یہ سلسلہ ’’انیائے‘‘ ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب ہم اپنی اتنی معصوم، مُشک بیز، دلکش اور لائقِ تقلید ثقافت سے منہ موڑ چکے ہیں پھر صرف ایک کھسے کو ناپید ہوتے دیکھ کر کیا رونا، ہمارا تو جثہ بھی اپنی ثقافت کا آئینہ دار نہیں رہا۔ اب تو حال یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی شناخت ہی گم کرنے کے درپے ہیں۔کاش ہم اپنے اسلاف کی اقدار کے امین محبِ وطن پاکستانی بن جائیں۔