Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی جلسوں میں بندے گننے کا فارمولہ کیا ہے؟ 

ایک زمانہ تھا جب موچی دروازے کے بیرونی گراؤنڈ یا ناصر باغ میں سیاسی جلسے کیے جاتے تھے جن کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوتے۔
سیاسی جماعتوں نے مگر جب سے ’سب سے بڑا‘ جلسہ کرنے کے دعوے کرنا شروع کیے ہیں تو مینار پاکستان کا گراؤنڈ یا گریٹر اقبال پارک اب ایسے جلسوں کے لیے مختص ہو چکا ہے جہاں پاکستان کے تمام اہم رہنماؤں جیسے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، عمران خان اور طاہرالقادری نے جلسے کیے جنہوں نے ملکی سیاست کا رُخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 
حالیہ سیاسی تاریخ میں 30 اکتوبر 2011 کو پاکستان تحریک انصاف کا مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں کیا گیا جلسہ بڑا تصور کیا جاتا ہے جس سے اسے قومی سطح پر عروج ملا۔ 
سنہ 2011 میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت برسراقتدار تھی اور عمران خان اسے آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔
جلسے کے انتظامات کے لیے پنجاب حکومت کے اس وقت کے ترجمان پرویز رشید مینار پاکستان گئے اور میڈیا کو بتایا کہ ’جلسہ گاہ میں پانچ ہزار کرسیاں لگائی گئی ہیں۔‘
اگلے دن جب جلسہ ہوا تو وہ حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تصور کیا جاتا ہے۔ پرویز رشید کو تب سے اب تک کرسیاں گننے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
یہی وہ وقت تھا جب سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑے جلسے کرنے، ایک دوسرے کے جلسوں کو چھوٹا ثابت کرنے اور سوشل میڈیا پر جلسے کے شرکا کا تخمینہ لگانے اور جلسے کے آخری حصوں کی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کر کے جلسہ گاہ کو خالی ثابت کرنے کے مقابلے کا رجحان شروع ہوا۔ 

شرکا کی تعداد گننے کا سائنسی طریقہ کیا ہے؟

پاکستان میں ایک دوسرے کو سیاسی طور پر نیچا دکھانے کے لیے جلسے کے شرکا کی تعداد گننے کے کئی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اور یہ مشق پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی شرکا کو گننے کے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ 
شرکا کو گننے کے ان طریقوں کے بارے میں تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے ہیں جن سے شرکا کی تعداد گننے کے کئی روایتی اور غیر روایتی طریقوں کا پتہ چلتا ہے۔ اب تو اس حوالے سے ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز بھی لانچ کی جا چکی ہیں۔
پاکستان میں جب بھی کوئی بڑا سیاسی اجتماع ہوتا ہے تو سیاسی جماعتیں اپنے شرکا کی تعداد کے بارے میں بڑے دعوے کرتی ہیں۔ اگلے دن اخبارات میں ایجنسیوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور آزاد ذرائع سے تعداد کے بارے میں خبر شائع ہوتی ہے جو اس سے کافی حد تک کم ہوتی ہے جس کا دعویٰ سیاسی جماعت کر رہی ہوتی ہے۔ 

پاکستان میں ایک دوسرے کو سیاسی طور پر نیچا دکھانے کے لیے جلسے کے شرکا کی تعداد گننے کے کئی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف نے ماضی قریب میں رائیونڈ میں اڈا پلاٹ کے مقام پر جلسہ کیا تھا جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ واک تھرو گیٹس پر ایسی مشینیں نصب کی گئی ہیں جو یہ بتا رہی ہیں کہ اس وقت جلسہ گاہ میں کتنے لوگ داخل ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھی ان کی جانب سے جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس سے مختلف تھا۔ 

قانون نافذ کرنے والے ادارے تعداد کا تخمینہ کیسے لگاتے ہیں؟

قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک سینیئر اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ کسی بھی جلسے کے شرکا کی تعداد جاننے کے لیے ادارے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔
’سب سے پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جلسے کے لیے مختص جگہ کی لمبائی اور چوڑائی ماپ کر اس کو مربع میٹرز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’طے شدہ اصول یہ ہے کہ ایک مربع میٹر میں تین افراد جمع ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی جماعت کا جلسہ ایک ہزار مربع میٹر کی جگہ گھیرتا ہے تو ایسے جلسے میں زیادہ سے زیادہ 30 ہزار افراد ہی شریک ہو سکتے ہیں۔‘
’قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹیمیں سب سے پہلے جلسہ گاہ پہنچتی ہیں اور کرسیاں گنتی ہیں۔ ان کرسیوں کی تعداد سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کتنے لوگوں کی شرکت متوقع ہے۔ اس حساب سے سکیورٹی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ جلسہ گاہ کی سویپنگ ہوتی ہے۔ جو اہلکار سویپنگ کرتے ہیں ان کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ جلسہ گاہ کی غیر محسوس طریقے سے پیمائش کریں جسے بعدازاں مربع میٹرز میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔‘

جب بھی کوئی سیاسی جماعت مینار پاکستان میں جلسہ کرتی ہے تو اس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ گراؤنڈ بھر دے گی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر سکیورٹی اہلکار کے مطابق ’دوسرا طریقہ واک تھرو گیٹس سے داخلے کے وقت گنتی کا ہوتا ہے جہاں پر موجود اہلکار گنتی کرتے ہیں اور آخر پر تمام اعداد و شمار کو جمع کر کے بھی تخمینہ لگایا جاتا ہے۔‘
ایک اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار نے بتایا کہ ’اب جدید سافٹ ویئرز بھی آ چکے ہیں جن سے جلسے کی تصاویر لے کر انہیں خاص سافٹ ویئر میں ڈالا جاتا ہے جو چہروں کی شناخت کے ساتھ ساتھ گنتی کا تخمینہ بھی لگاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اب تو بندے گننے کے لیے یہ ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جاتی ہے کہ جلسہ گاہ کے اطراف میں موجود موبائل فون ٹاورز کے ساتھ جلسہ شروع ہونے سے پہلے سے لے کر ختم ہونے تک کتنے موبائل فون کنیکٹ ہوئے۔‘

مینار پاکستان گراؤنڈ میں کتنے افراد آ سکتے ہیں؟ 

جب بھی کوئی سیاسی جماعت مینار پاکستان میں جلسہ کرتی ہے تو اس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ مینار پاکستان کے گراؤنڈ یا گریٹر اقبال پارک کو بھر دے گی۔ 
حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ گریٹر اقبال پارک انتظامیہ کے مطابق سیاسی جلسوں کے لیے مینار پاکستان کے گراؤنڈ کا جو حصہ مختص کیا جاتا ہے وہ 15 ایکڑ کے قریب ہے۔ وی وی آئی پی پارکنگ، سٹیج کے اطراف اور سامنے خالی جگہ چھوڑ کر شرکا کے لیے کم و بیش 11 سے 12 ایکڑ جگہ بچتی ہے۔ 
اب اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فارمولہ اپلائی کریں اور جلسہ گاہ کے سامنے گراؤنڈ کا کوئی حصہ بھی خالی نہ ہو تو ان جلسوں میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ افراد ہی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ 

تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ کی تیاریوں سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ مینار پاکستان پر حالیہ تاریخ کا بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اب جب مسلم لیگ ن 10 لاکھ افراد کو لانے کا دعویٰ کر رہی ہے تو انھیں ماضی قریب میں یہاں ہونے والے بڑے جلسوں سے کم از کم 10 گنا بڑا جلسہ کرنا ہو گا۔ 
تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ کی تیاریوں سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ مینار پاکستان پر حالیہ تاریخ کا بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور شرکا کی تعداد اگر دو لاکھ سے تجاوز کر گئی تو تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں۔ 
خیال رہے کہ مینار پاکستان کا پورا گراؤنڈ یعنی گریٹر اقبال پارک اب تک صرف ایک مرتبہ علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے کے وقت ہی بھرا تھا، جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی۔ 

شیئر: