پاکستان میں ان دنوں سب سے بڑی خبر سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی ہے، لیکن ان کے سیاسی کیریئر میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وہ طویل عرصے کے بعد وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کو 12 اکتوبر 1999 میں اقتدار سے نکالے جانے کے کچھ عرصے بعد ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ جلا وطنی کے سات سال گزر جانے کے بعد نواز شریف نے وطن واپس آنے کے لیے 10 ستمبر 2007 کی تاریخ کا انتخاب کیا، لیکن انھیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ ان کی اس ناکام کوشش کے چند ماہ بعد ہی وہ اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ اچانک لاہور ایئرپورٹ پہنچ گئے اور انھیں کسی نے نہیں روکا۔
وہ تیسری بار اس وقت جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس لوٹے جب اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو سزا سنائی۔ نواز شریف اور مریم نواز اس وقت کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن میں موجود تھے۔ نواز شریف مریم نواز کو لے کر اسی وقت وطن واپس آ گئے جہاں انہیں اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
نواز شریف کی آمد پر دو طیارے لاہور پر پھول برسائیں گےNode ID: 805011
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سابق نواز شریف کی سیاست کے کئی جانشین موجود ہیں۔ وہ قانونی طور پر سیاست کرنے کے لیے فی الوقت نااہل ہیں اور وطن واپسی کے بعد انھیں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔
2007 میں نواز شریف کی واپسی کی کوشش کا آنکھوں دیکھا حال
21 اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے ان کی جماعت ملک گیر مہم چلا رہی ہے اور مینار پاکستان میں استقبالیہ جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے پوری طرح کوشاں ہے۔ کسی بھی سطح پر ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تاہم عمران خان کی جیل میں موجودگی اور عوام میں ان کی مقبولیت (ن) لیگ کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہی ہے۔
2007 میں یہ صورت حال اس کے برعکس تھی۔ (ن) لیگ کی اسمبلی میں نمائندگی ہونے کے باوجود ان کی جماعت سیاسی طور پر بہت زیادہ اثر و رسوخ نہیں رکھتی تھی جس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ یہ ووٹ تو لے سکتی ہے، لیکن لوگوں کو باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
پورے ملک سے قافلے لانے کے بجائے (ن) لیگی رہنماؤں نے خفیہ اجلاسوں میں یہ طے کیا کہ سب مل کر ریلی کی صورت میں ایئرپورٹ پر پہنچیں گے اور نواز شریف کا استقبال کریں گے۔
راولپنڈی کے علاوہ اور کسی شہر کے کارکنان کو ایئرپورٹ پہنچنے کی کال نہیں دی گئی تھی۔ وفاقی اور صوبائی حکومت نے طے کیا تھا کہ (ن) لیگ کے کسی رہنما اور کارکن کو ایئرپورٹ نہیں جانے دیا جائے گا۔ ان دنوں پرانا ایئرپورٹ ہی کام کر رہا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت پارٹی کے چیئرمین راجا ظفرالحق کے گھر جمع ہوئی اور صبح دس بجے کے قریب راجا ظفرالحق کے گھر سے ریلی روانہ ہوئی۔ ریلی کا ایک سرا زیرو پوائنٹ اور آخری سرا جی سیون کی گلیوں میں تھا۔ بظاہر لگ رہا تھا کہ اس ریلی کو روکنا ناممکن ہو گا۔

آپ نے اگر اسلام آباد دیکھا ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پرانا زیرو پوائنٹ آج کے زیرو پوائنٹ سے مختلف تھا۔ یہ ایک چوراہا ہوا کرتا تھا جس کی ایک جانب کی دو رویہ سڑک آبپارہ کی طرف جاتی تھی جسے خیابان سہروردی کہا جاتا ہے۔ (ن) لیگ کی ریلی اس شاہراہ پر نمودار ہوئی۔ زیرو پوائنٹ چوک سے چند گز پہلے پولیس کے دس اہلکار لوہے کی ایک رکاوٹ کھڑی کر کے اس ریلی کو روکنے کے لیے موجود تھے۔
راجا ظفرالحق، اقبال ظفر جھگڑا اور احسن اقبال جو ایک چھوٹے ٹرک پر سوار تھے، ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ وہاں پہنچے تو پولیس نے انھیں بنا کچھ کہے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اقبال ظفر جھگڑا مائیک سے گویا ہوئے، ’ہم جمہوری لوگ ہیں۔ اپنے قائد کے استقبال کے لیے جا رہے ہیں۔ خدا کے لیے ہمیں جانے دو۔‘
پولیس اہلکاروں نے لیگی قیادت کو گاڑیوں سے نیچے اتار کر ناکے کے دوسری جانب کھڑی گاڑی میں ڈال کر ایئرپورٹ منتقل کرنا شروع کیا۔ تمام رہنما بنا کسی بڑی مزاحمت کے ایک ایک کرکے گرفتار ہو گئے۔ تہمینہ دولتانہ نے کچھ مزاحمت کی تو خواتین پولیس اہلکاروں نے انھیں بھی حراست میں لے لیا۔
اس دوران ریلی منتشر ہو گئی اور کوئی بھی رہنما اور کارکن کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ غالباً وہ جی سیون کی گلیوں میں چلے گئے تھے۔
سابق صدر مرحوم رفیق تارڑ بھی وہاں دکھائی دیے جو سانس پھول جانے کے باعث ہانپ رہے تھے۔ انہوں نے سانس بحال ہونے پر پرویز مشرف کے لیے خوب بد دعائیں کیں۔
ایئرپورٹ پر کیا ہوا؟
دوسری جانب نواز شریف کا طیارہ ایئرپورٹ پر اتر چکا تھا جسے خفیہ طور پر لگائے گئے ٹی وی کیمروں نے سکرین پر دکھا دیا تھا۔
