Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زکاۃ کی ادائیگی رمضان سے وابستہ نہیں

زکاۃ کے وجوب اور ادائیگی کیلئے قمری سال ہونا ضروری ہے ، اگر کسی کو قمری تاریخ یاد نہ ہو تو کوئی قمری تاریخ متعین کر لینا چاہیے
* * * مولانامفتی محمد راشد ڈَسکوی ۔ کراچی* *
(گزشتہ سے پیوستہ)
نصابِ زکاۃ: گزشتہ قسط میں معاشرے کے 3 طبقات کو بیان کیا گیا تھا،جن کی تمیز ’’نصاب ‘‘کے مالک ہونے پر موقوف ہے۔اس تمیز کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ نصاب2 قسم کا ہوتا ہے، ایک نصاب کا تعلق ’’زکاۃ دینے والے ‘‘ سے ہے اور دوسرے نصاب کاتعلق ’’زکاۃ لینے والے ‘‘ سے ہے، دونوں قسم کے نصابوں میں کچھ فرق ہے، جو ذیل میں لکھا جا رہا ہے: پہلی قسم کا نصاب (زکاۃ دینے والے کیلئے): اللہ رب العزت نے اپنے غریب بندوں کے لئے امراء پر اُن کے اموال کی ایک مخصوص مقدار پر زکاۃ فرض کی ہے، جس کو نصاب کہا جاتا ہے۔اگر کوئی شخص اس نصاب کا مالک ہو تو اس پر زکاۃ فرض ہے اور اگر کسی کے پاس اس نصاب سے کم ہو تو اس شخص پر زکاۃ فرض نہیں ۔
٭ اگر کسی کے پاس صرف ’’سونا‘‘ ہو اور کوئی مال(مثلاً:چاندی، نقدی یا مالِ تجارت) نہ ہو تو جب تک سونا ساڑھے7 تولے (87.479گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاۃ فرض نہیں ہوتی اور اگر سونا اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاۃ فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، صفۃالزکاۃ)۔
٭ اگر کسی کے پاس صرف ’’چاندی ‘‘ ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مالِ تجارت) نہ ہو تو جب تک چاندی ساڑھے52 تولے (612.35گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاۃ فرض نہیں ہوتی اور اگر چاندی اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاۃ فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ،اموال الزکاۃ)۔
٭ اگر کسی کے پاس صرف ’’نقدی‘‘ ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب تک نقدی اتنی نہ ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (612.35گرام) چاندی خریدی جاسکے ، اس وقت تک زکاۃ فرض نہیں ہوتی اور اگر نقدی اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے52 تولے (612.35گرام)چاندی خریدی جا سکے تو زکاۃ فرض ہو جاتی ہے(بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ،اموال الزکاۃ)۔
٭ اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی ہو (چاہے جتنی بھی ہو) یا سونا اور نقدی ہو یا سونا اور مالِ تجارت ہو یا چاندی اور نقدی ہویا چاندی اور مالِ تجارت ہویا (تینوں مال)سونا، چاندی اور نقدی ہو یا سونا ، چاندی اور مالِ تجارت ہو یا(چاروں مال) سونا، چاندی ، نقدی اور مالِ تجارت ہو تو ان تمام صورتوں میں ان اموال کی قیمت لگائی جائیگی ، اگر انکی قیمت ساڑھے 52 تولے (612.35گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکاۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ،صفۃ الزکاۃ)۔ دوسری قسم کا نصاب (زکاۃ لینے والے کے لئے): اس نصاب میں مذکورہ نصاب (یعنی پہلی قسم کے نصاب کی تمام صورتوں )کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی شامل کیا جائے گااور یہاں بھی وہ تمام صورتیں بنیں گی جو پہلی قسم کے نصاب میں بنتی تھیں، مثلاً: « اگر کسی کے پاس صرف ’’سونا‘‘ اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائیگی ،اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے 52تولے (612.35گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاۃ لینا جائز نہیں اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔ « اگر کسی کے پاس صرف ’’چاندی ‘‘ اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مالِ تجارت) نہ ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائیگی اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے52 تولے (612.35گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاۃ لینا جائز نہیں اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔
« اگر کسی کے پاس صرف ’’نقدی‘‘ اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب انکی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے52 تولے (612.35گرام)چاندی خریدی جاسکے، تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاۃ لینا جائز نہیں اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے،اور اگر ان دونوں کی قیمت اتنی نہ ہو کہ اس سے ساڑھے 52تولے (612.35گرام)چاندی خریدی جا سکے تو ایسے شخص کا زکاۃ لینا جائز ہے۔ « اگر کسی کے پاس سونا ،چاندی اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو (چاہے جتنا بھی ہو)۔ « اگر کسی کے پاس سونا ، نقدی اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو۔ « اگر کسی کے پاس سونا،مالِ تجارت اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو۔ « اگر کسی کے پاس چاندی ، نقدی اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو۔ « اگر کسی کے پاس چاندی ، مالِ تجارت اورضرورت سے زائد سامان ہو۔ « اگر کسی کے پاس (چاروں مال)سونا، چاندی ، نقدی اور ’’ضرورت سے زائد سامان‘‘ہو۔ « اگر کسی کے پاس سونا ، چاندی ،مالِ تجارت ہو اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو۔ « اگر کسی کے پاس (پانچوں مال)سونا،چاندی، نقدی ،مالِ تجارت اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہوتوان تمام صورتوں میں ان تمام اموال کی قیمت لگائی جائیگی ۔
اگر انکی قیمت ساڑھے52 تولے (612.35گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تواس مقدار کی مالیت کے مالک کا زکاۃ لیناجائز نہیں اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے اور اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہوتو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں صاحب نصاب نہیں کہلاتا، یعنی اس شخص کا زکاۃ اور ہر قسم کے صدقات ِ واجبہ لینا جائز ہو گا (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ، مصارف الزکاۃ)۔ ضرورت سے زائد سامان:
٭ وہ تمام چیزیں جو گھروں میں رکھی رہتی ہیں ، جن کی سالہا سال ضرورت نہیں پڑتی ، کبھی کبھار ہی استعمال میں آتی ہیں، مثلاً: بڑی بڑی دیگیں ، بڑی بڑی دریاں، شامیانے یا برتن وغیرہ (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاۃ، الباب الاول فی تفسیر الزکاۃ)۔
٭ وی سی آر، ڈش ،ناجائز مضامین کی آڈیو ویڈیوکیسٹیں جیسی چیزیں ضروریات میں داخل نہیں بلکہ لغویات ہیں۔مذکورہ قسم کا سامان ضرورت سے زائد کہلاتا ہے،اس لئے ان سب کی قیمت حساب میں لگائی جائیگی۔
٭ رہائشی مکان ، پہننے،اوڑھنے کے کپڑے، ضرورت کی سواری اور گھریلو ضرورت کا سامان جو عام طور پر استعمال میں رہتا ہے، یہ سب ضرورت کے سامان میں داخل ہیں، اس کی وجہ سے انسان شرعاً مال دار نہیں ہوتا، یعنی ان کی قیمت نصاب میں شامل نہیں کی جاتی(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاۃ، الباب الاول فی تفسیر الزکاۃ )۔
٭ صنعتی آلات، مشینیں اور دوسرے وسائلِ رزق (جن سے انسان اپنی روزی کماتا ہے)بھی ضرورت میں داخل ہیں ان کی قیمت بھی نصاب میں شامل نہیں کی جاتی، مثلاً:درزی کی سلائی مشین، لوہاراور کاشت کار وغیرہ کے اوزار، سبزی یا پھل بیچنے والے کی ریڑھی یا سائیکل وغیرہ(حوالۂ بالا)۔
٭ اگر کسی کے پاس ضرورت پوری کرنے کا سامان ہے لیکن اس نے کچھ سامان اپنی ضرورت سے زائدبھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے، مثلاً:کسی کی ضرورت ایک گاڑی سے پوری ہو جاتی ہے لیکن اس کے پاس2 گاڑیاں ہیں، تو اس زائد گاڑی کی قیمت کو نصاب میں داخل کیا جائے گا (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ،مصارف الزکاۃ )۔ زکاۃ واجب ہونے کے لئے تاریخ: زندگی میں سب سے پہلی بار جب کسی کی ملکیت میں پہلی قسم کے نصاب کے مطابق مال آجائے، تو وہ دیکھے کہ اس دن قمری سال (چاند )کی کون سی تاریخ ہے؟اس تاریخ کو نوٹ کر لے، یہ تاریخ اس شخص کیلئے زکاۃ کے حساب کی تاریخ کے طور پر متعین ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ زکاۃ کے وجوب اور ادائیگی کیلئے قمری سال ہونا ضروری ہے ، اگر کسی کو قمری تاریخ یاد نہ ہو تو خوب غور و فکر کر کے کوئی قمری تاریخ متعین کر لینا چاہیے،آئندہ اسی کے مطابق حساب کیا جائے گا۔ زکاۃ کا حساب کرنے کا طریقہ: جس چاند کی تاریخ کو کسی کے پاس بہ قدر نصاب مال آیا ، اس سے اگلے سال ٹھیک اسی تاریخ میں اپنے مال کا حساب کیا جائے، اگر بہ قدر (پہلی قسم کے)نصاب کے مال ہے تو اس کُل مال کا اڑھائی فیصد (2.5%) زکاۃ دینا ہو گی(العالمگیریہ، کتاب الزکاۃ) سامان کی قیمت لگانے کا طریقہ: ’’پہلی قسم کا نصاب ‘‘اور ’’دوسری قسم کا نصاب ‘‘پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا کہ ’’دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگائی جائے ‘‘ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔اسی طرح سونا ، چاندی کی بھی قیمتِ فروخت کا اعتبار ہو گا۔مثلاًکراچی میں کسی شخص نے یہ چیز10 ہزار میں خریدی، پھر فروخت کرنے کے وقت اس کی قیمت 15ہزار یا کم ہو کر 7 ہزار ہو گئی تو فروخت والی قیمت کو زکاۃ کے لئے شمار کیا جائے گا(رد المحتار، کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ الغنم) مال پر سال گزرنے کا مطلب: جس تاریخ میں زکاۃ واجب ہوئی تھی، اس کے ایک سال بعد زکاۃ دی جائیگی۔اس ایک سال کے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی تاریخ اور ایک سال کے بعد والی تاریخ میں مال نصاب کے بہ قدر اس شخص کی ملکیت میں رہے، ان دونوں تاریخوں کے درمیان میں مال میں جتنی بھی کمی بیشی ہوتی رہے ، اس سے کچھ اثر نہیں پڑتا، بس شرط یہ ہے کہ مال نصاب سے کم نہ ہو گیا ہو، یعنی مال کے ہر ہر جز پر سال کا گزرنا شرط نہیں بلکہ واجب ہونے کے بعد اگلے سال اسی تاریخ تک نصاب کا باقی رہنا ضروری ہے، اگر نصاب باقی ہوا تو ادائیگی لازم ہو گی ورنہ نہیں (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ،اموال الزکاۃ)
مالِ تجارت کی زکاۃ کے احکام: ’’مال ِ تجارت سے مراد ‘‘!پیچھے واضح کی جا چکی ہے کہ تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال ِ زکاۃ ہے۔ (اور اگر مذکورہ مال (مال ِ تجارت )کوگھر کے استعمال کے لئے رکھ لیا، یا اس کے بارے میں کسی کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ مال ،مالِ زکاۃ نہ رہا)۔بعض افراد اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تجارت کا مال صر ف و ہ ہے جس کی انسان باقاعدہ تجارت کرتا ہو اور نفع کمانے کی نیت سے خرید و فروخت کرتا ہوحالانکہ شرعاً کسی چیز کے مالِ تجارت بننے کے لئے اس میں مذکورہ قید ضروری نہیں بلکہ جو چیزبھی انسان فروخت کرنے کی نیت سے خریدے وہ تجارت کے مال میں شمار ہوتی ہے، البتہ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہ ہوتو بعدمیں فروخت کر لینے کی نیت سے وہ چیز مالِ تجارت نہیں بنے گی۔
دوسری طرف وہ چیز جسے تجارت کی نیت سے خریدا تھا اَگر بعد میں تجارت کی نیت بدل لی تو وہ چیز مالِ تجارت سے نکل جائیگی۔سونا ، چاندی اور نقدرقم اس تعریف سے خارج ہے، یعنی ان کے لئے کسی خاص نیت وغیرہ کی ضرورت نہیں، یہ ہر حال میں مالِ زکاۃ ہیں(ردالمحتار،کتاب الزکاۃ) تجارتی اموال سے متعلق چند مسائل :
٭ جن اشیاء کو فروخت کرنا مقصود نہ ہو بلکہ ان کی ذات کو باقی رکھتے ہوئے ان سے کرایہ وغیرہ حاصل کرنا یا کسی اور شکل میں نفع کمانا مقصود ہو، تو وہ چیزیں مالِ تجارت میں داخل نہیں۔مثلاًکارخانوں کا منجمد اثاثہ ، پرنٹنگ پریس، مشینری، پلانٹ، دوکان کا سامان ، استعمال کی گاڑی، ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کرائے پر چلانے کی نیت سے خریدی گئی گاڑی، رکشہ وغیرہ، کرائے پر دینے کی نیت سے بنا یا گیا مکان یا دوکان وغیرہ،گھر کے استعمال کے برتن، کرائے پر دینے کے لئے رکھے ہوئے برتن ، کراکری کا سامان، فریج ، فرنیچر، سلائی یا دھلائی کی مشین، ڈرائی کلینرز کے پلانٹ وغیرہ۔ اس قسم کی چیزیں چونکہ فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدی گئیں بلکہ ان کو باقی رکھ کر ان سے نفع اٹھانا مقصود ہے اس لئے یہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہوں گی اور ان پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی، ہاں اگر ان کو خریدا ہی فروخت کرنے کے لئے ہو تو یہ مالِ تجارت ہو ں گی۔ اسی طرح موجودہ دور میں بعض میکینک حضرات اپنے کام کاج کے اوزاروں کے ساتھ بعض اوزاروں کو اس لئے خریدتے ہیں کہ بہ وقتِ ضرورت گاہکوں کی مشینری وغیرہ میں فٹ کر دیں گے، اور اس کی قیمت گاہکوں سے وصول کرلیں گے، تو یہ مال بھی مالِ تجارت میں داخل ہے (ردالمحتار، کتاب الزکاۃ)
٭ اگر کوئی جانور بیچنے کیلئے خریدے تو وہ بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں،ان کی زکاۃ بھی واجب ہو گی(احسن الفتاویٰ )۔ قصاب جو جانور ذبح کر کے گوشت بیچتے ہیں تو یہ جانور بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں۔جو جانور دودھ حاصل کرنے کے لئے خریدیں تو وہ مالِ تجارت میں داخل نہیں البتہ ان کے دودھ سے حاصل ہونے والی کمائی نقد رقم میں داخل ہو کر نصاب کا حصہ بنے گی(احسن الفتاویٰ)۔
٭ اگر کسی کا پولٹری فارم یا مچھلی فارم ہو،تو ان کی زکاۃ میں یہ تفصیل ہے کہ ان کی زمین، مکان اور ان سے متعلقہ سامان پر تو زکاۃ فرض نہیں ہوتی،البتہ مرغیاں یا مچھلیاں اگر فروخت کرنے کے لئے رکھی ہیں تو یہ مالِ تجارت ہیں اوراگر فروخت کرنے کے لئے نہیں،بلکہ مرغیوں کے انڈے حاصل کرنے کے لئے وہ مرغیاں رکھی ہیں تو ان انڈوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زکاۃ ہو گی(احسن الفتاویٰ)۔ جو شخص انڈے فروخت کرنے کے لئے خریدتا ہے تو وہ انڈے مالِ تجارت ہیں،اور اگر ان انڈوں سے چوزوں کا حصول مقصود ہے تو ان بچوں کی قیمت پر زکاۃ لازم ہوگی۔
(جاری ہے)

شیئر: