جان لیوا ’کالا پانی‘ سے پھوٹنے والی وبا جس سے کورونا کا زمانہ یاد آ جائے
جان لیوا ’کالا پانی‘ سے پھوٹنے والی وبا جس سے کورونا کا زمانہ یاد آ جائے
اتوار 22 اکتوبر 2023 10:53
خاور جمال
ویب سیریز ’کالا پانی‘ کی کہانی جزائر میں پھوٹ پڑنے والی جان لیوا وبا کے بارے میں ہے (فوٹو: نیٹ فلیکس)
کالا پانی کا لفظ سنتے ہی ذہن میں تقسیم سے پہلے کا دور گھومنے لگتا ہے کہ جب راج برطانیہ کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو بطور سزا جزائر انڈمان میں قائم جیل بھیج دیا جاتا تھا اور وہاں سے واپسی ناممکن ہوتی تھی۔
مستقبل قریب کے تناظر میں فلمائی گئی نیٹ فلیکس کی ویب سیریز ’کالا پانی‘ کی کہانی بھی انہی جزائر میں پھوٹ پڑنے والی ایک ایسی وبا کے بارے میں ہے کہ جس سے بچنا ناممکن نظر آتا ہے۔
کہانی کا آغاز سال 2027 کے دوران جزائر انڈمان میں ہونے والے ایک فیسٹیول سے ہوتا ہے جس میں لوگ بڑی تعداد میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ اس دوران وہاں ایک ایسی وبا پھوٹ پڑتی ہے جس سے مقامی لوگ تیزی سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر سنگھ اس خطرے کو بھانپ لیتی ہے مگر انتظامیہ کو اس بیماری کی شدت کے بارے یقین دلانے میں ناکام رہتی ہے نتیجتاً فیسٹیول منسوخ نہیں کیا جاتا اور ہزاروں افراد بےخبری میں موت کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔
ان جزائر کے انتظامی امور لیفٹیننٹ جنرل جبران قادری سنبھال رہے ہیں جو اس کشمکش کا شکار ہیں کہ اس صورت حال عوام اور باقی ممالک کو کیسے آگاہ کیا جائے۔ اسی دوران یہ خبر پورے ملک میں پھیل جاتی ہے۔ اب یہ تمام جزیرے حقیقت میں ’کالا پانی‘ کا روپ دھار لیتے ہیں۔
ایک طرف ڈاکٹروں کی ٹیم اس وبا کا علاج ڈھونڈنے میں مصروف ہے جنہیں پتہ چلتا ہے کہ ان جزائر کے اصل باسی ’اوراکا‘ قبیلے کے باشندے جو یہاں ساٹھ ہزار سال سے آباد ہیں اس بیماری کا شکار نہیں ہوئے لہٰذا ان کی تحقیق کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔
دوسری طرف ہنگامہ اور افراتفری مچنے پر تفریح کی غرض سے آئے ہوئے سنتوش سالوا کی کہانی ہے جو اپنے بچوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ اسی دوران فیسٹیول منعقد کرنے والی کمپنی ’ایٹم‘ وبا سے ہونے والے نقصانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی پوری کوشش میں ہے اور کرپٹ پولیس افسر کیتن اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کر رہا ہے۔
وبا کے پھوٹ پڑنے پر جو افراتفری مچتی ہے اسے دیکھ کر آپ کو کووڈ 19 کا زمانہ یاد آ جائے گا۔ احتیاطی تدابیر تقریباً ویسی ہی دِکھائی گئی ہیں تاہم وبا کئی گنا زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اور جان لیوا ہے۔
ارتقا اور بقا کی گتھیاں سُلجھاتی مشہور سائنسدان ڈارون کی ’تھیوری آف ایولوشن‘ کو اس ویب سیریز کی بنیاد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ زمین پر جانداروں کی کوئی بھی نسل بدلاؤ لائے بغیر بقا حاصل نہیں کر سکی۔ فطرت سب کو ایک موقع ضرور دیتی ہے۔ اگر وہ جاندار رہن سہن اور عادات و اطوار میں تبدیلی لا کر خود کو فطرت کی ’ستم ظریفی‘ سے بچا لے تو بہتر ہے ورنہ وہ سفاکیت سے اس کا نام و نشان مٹا دیتی ہے۔
اس ویب سیریز میں کاسٹ کی شاندار کارکردگی نے اسے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اداکارہ مونا سنگھ (ڈاکٹر سنگھ) نے جو مشہور ڈرامہ سیریل ’جسی جیسی کوئی نہیں‘ سے شہرت یافتہ ہیں، اس ویب سیریز میں بطور مہمان اداکار کام کیا ہے۔
اگر کہا جائے کہ اداکار سکانت گوئل نے بطور ٹیکسی ڈرائیور ’چیرو‘ اور اداکار وکاس کمار نے بطور ایک باپ ’سنتوش سالوا‘ کے کردار کو ادا کرتے ہوئے شو کو چرا لیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ایسی بہترین اداکاری آج کل کے دور میں مشکل سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کے علاوہ ویب سیریز ’آسور‘ سے شہرت پانے والے آمی واگھ کرپٹ پولیس افسر کیتن کے کردار میں نظر آئیں گے۔
میری رائے میں صرف ایک اداکار اس ویب سیریز میں مِس کاسٹ تھا جو کہ لیفٹیننٹ جنرل جبران قادری کا کردار ہے جس کو مشہور فلم لگان کے ہدایت کار اشوتوش گواریکر نے ادا کیا ہے۔ مجھے وہ کسی زاویے سے بھی فوجی افسر نہیں لگ رہے۔ شاید اگر تگڑی مونچھیں انھیں لگا دی جاتیں تو شخصیت کا کچھ رعب بن جاتا۔
’کالا پانی کی یہ کہانی‘ پانی کی طرح ہی روانی سے بہتی چلی جاتی ہے۔ پلاٹ مضبوط، تحقیق قابلِ داد اور اداکاری شاندار ہے۔ خوب صورت جزائر کی سینیماٹوگرافی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ سکرپٹ رائٹر بسواپتی سرکار ہیں جو خود بھی ٹی وی اور فلموں میں اداکاری کرتے ہیں۔ سمیر سکسینا اس ویب سیریز کے ہدایت کار ہیں جو اس سے پہلے ’پنچایت‘ نامی مشہور ویب سیریز کے تخلیق کار بھی ہیں۔
آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ 10 میں سے 8.2 ہے جبکہ نیٹ فلیکس پاکستان پر اس وقت یہ نمبر 1 پر موجود ہے۔ اس شو میں انسانی شناخت، ماحولیاتی استحصال، سیاسی بدعنوانی اور مقامی لوگوں کی فطرت سے ہم آہنگی جیسے موضوعات کو تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔
کالا پانی کے یہ جزیرے اب اپنے نام کی طرح ایک جیل کی صورت اختیار کر گئے ہیں اور اس جیل کی دیواریں مٹی اور گارے سے نہیں، پانی سے بنی ہیں۔