Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نو ویئر‘: بپھرے سمندر میں ایک ماں کی اپنے بچے کے لیے بقا کی جنگ

فلم ایک ماں کی اولاد کے لیے کسی بھی طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھنے کی عکاسی کرتی ہے (فوٹو: نیٹ فلیکس)
کسی فلم میں اگر کردار زیادہ ہوں تو ہر اداکار کے مکالمے لکھنا، ان میں ربط برقرار رکھنا اور ہر ایک کو پردے پر وقت دینا کافی محنت طلب کام ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک ہی کردار کو مرکز میں رکھ کر پوری فلم بنانا پڑے تو یہ اس سے بھی مشکل ٹاسک ہے۔
اداکار اور ہدایت کار کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ اب مکالمے تو رہے نہیں کیوں کہ کردار اکیلا ہے اور کسی سے بات نہیں کر سکتا۔ اب فلم میں ایسا کیا دکھایا جائے کہ ناظرین کی دلچسپی برقرار رہے اور فلم بھی چل جائے۔ 
درجہ بندی کے لحاظ سے ایسی زیادہ تر فلمیں ’سروائیول موویز‘ کہلاتی ہیں۔ یہ ایسے کرداروں کے بارے میں ہوتی ہیں جو کسی ایسی صورت حال میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے نکلنا نا ممکن حد تک مشکل ہوتا ہے۔ زندہ رہنے اور اس صورت حال سے فرار کے لیے وہ کردار بعض اوقات ایسے مراحل سے گزرتا ہے جس کے بارے میں عام حالات میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ 
29 ستمبر کو نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے والی فلم ’نو ویئر‘ بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے جس کا مرکزی کردار میا نامی حاملہ خاتون ہیں۔ فلم میں ملک سپین کا بھیانک مسقبل دکھایا گیا ہے جہاں اب جمہوریت کے بجائے ظالم اور جابر آمریت کا راج ہے۔ لوگ کسی بھی قیمت پر فرار ہونا چاہتے ہیں یہ جاننے ہوئے بھی کہ اگر وہ پکڑے گئے تو کچھ بھی سُنے سمجھے بغیر انہیں مار دیا جائے گا۔
اسی تگ و دو میں میا اور ان کے شوہر نیکو بھی ایک کنٹینر میں بند ہو کر آئر لینڈ فرار کے لیے کوشاں ہیں۔ ایک کنٹینر میں لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسرے کنٹینر کا انتظام کیا جاتا ہے جس میں دونوں میاں بیوی الگ ہو جاتے ہیں۔ میا اُمید سے ہیں۔ ایک امید کہ ان کا خاندان آئر لینڈ میں جا بسے اور دوسری اس آنے والے بچے کے اچھے مستقبل کی اُمید۔ 
ایک چیک پوسٹ پر کنٹینر کو روک کر تلاشی لی جاتی ہے اور تمام لوگ مار دیے جاتے ہیں لیکن میا چُھپ کر بچ جاتی ہیں۔ اب وہ اکیلی ہیں اور نیکو کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔ کنٹینر کو ایک بحری جہاز پر لاد دیا جاتا ہے جو طوفان میں گھر کر ڈگمگاتا ہے اور کنٹینر سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے میا کی بقا کی جنگ ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
بپھرے ہوئے سمندر میں تقریباً پانی سے بھری ایک عارضی پناہ گاہ میں اکیلے ایک نئی زندگی کو جنم دینا اور پھر بے سر و سامانی کے عالم میں اس کو زندہ رکھنے کی تدابیر کرتے رہنے کے مناظر میں بقا کی وہ جنگ دِکھائی گئی ہے جو ایک ماں کی اپنی اولاد کے لیے کسی بھی طوفان سے ٹکرانے کی طاقت رکھنے کی عکاسی کرتی ہے۔

ایک چیک پوسٹ پر کنٹینر کو روک کر تلاشی لی جاتی ہے اور تمام لوگ مار دیے جاتے ہیں لیکن میا چُھپ کر بچ جاتی ہیں (فوٹو: نیٹ فلیکس)

 
اینا کاسٹیلو کے کردار ’میا‘ کی کہانی اگرچہ مایوسی اور خطرے سے دوچار ہے لیکن ممتا کی ایک گہری سچائی اور  پختہ عزم کا مظہر ہے۔
ایک ایسی طاقت جو اپنے بچے کی حفاظت کے لیے ناقابلِ تسخیر مشکلات کو عبور کرتی ہے۔ میا کے کردار میں ہم ایک ایسا جذبہ دیکھتے ہیں جو انسان کے ثابت قدم رہنے کی قابلِ ذکر صلاحیت کے ساتھ ماں اور اس کے بچے کے درمیان اٹوٹ بندھن کا آئینہ دار ہے۔
اس فلم کے ہدایت کار البرٹ پنٹو ہیں جو سپین سے تعلق رکھتے ہیں۔ البرٹ اپنی کم دورانیئے کی فلم ’سیونٹین‘ پر سپین کے گاؤدی ایوارڈ کے لیے بہترین ہدایت کاری پر نامزدگی حاصل کر چکے ہیں۔ اب اسی سال مشہور ویب سیریز ’منی ہائسٹ‘ کے ایک کردار پر بننے والے ٹی وی ڈرامے ’برلن‘ کے ہدایت کاروں کی ٹیم میں بھی البرٹ پنٹو شامل ہیں۔
ایسی فلمیں بنانے کے لیےعام فلموں سے زیادہ محنت درکار ہوتی ہے جس میں مضبوط اور حقیقت سے قریب تر کہانی سب سے پہلے نمبر پر آتی ہے۔ اگر کہانی حقیقی واقعات سے ماخوذ ہو تو کافی مرتبہ خطرناک مناظر فلمانے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ اس فلم کی کہانی بالکل فرضی ہے اور اداکارہ اینا کاسٹیلو ’میا‘ کے کردار میں حقیقت سے قریب اداکاری کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
فلم کے زیادہ تر مناظر سپین میں ٹیراگونا کی بندرگاہ پر فلمائے گئے ہیں اور سپیشل ایفیکٹس بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ فلم سپینش زبان میں بنائی گئی ہے تاہم نیٹ فلیکس پر انگریزی ڈبنگ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
آئی ایم ڈی بی پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 6.4 ہے  جبکہ 93 فیصد ناظرین نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ زندگی میں ایسے نشیب و فراز آتے ہیں جب انسان کو ہر طرف اندھیرا دکھائی دیتا ہے، اور وہ مایوس ہونے لگتا ہے لیکن یہ اس کی عظمت کے خلاف ہے اس لیے وہ جد و جہد کرتا ہے اور اس اندھیرے سے نکل آتا ہے۔
یہ تین فقرے میں نے میٹرک کے کورس میں پڑھے تھے لیکن ان کے صحیح معنی مجھے یہ  فلم دیکھ کر سمجھ آئے۔

شیئر: