Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب پولیس کا عوام میں اپنا تاثر بہتر کرنے کے انٹرن شپ پروگرام کتنا مددگار ثابت ہوگا؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس نے حال ہی میں ایک انٹرن شپ پروگرام شروع کیا ہے جس میں طلبہ و طالبات کو پولیس کا عوام میں مثبت تاثر دینے کی تربیت دی جا رہی ہے۔
اس پروگرام کا آغاز صوبائی دارالحکومت لاہور سے کیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں سے ڈیڑھ سو طالب علموں کواس انٹرن شپ پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔ انٹرنیز کو قلعہ گجر سنگھ پولیس لائن میں دو ہفتے تک تربیت دی گئی۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے پاکستان کی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں بھی انٹرن شپ پروگرام کئی سالوں سے چلایا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت طلبا کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں ’مثبت‘ خیالات کی ترویج کی تربیت دی جاتی ہے۔
تاہم پولیس کا انٹرن شپ پروگرام جسے ’فرینڈز آف پولیس‘ کا نام دیا گیا ہے یہ رضاکارانہ بنیادوں پر ہے۔ مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں پولیس نے ایسے طلبا سے درخواستیں طلب کیں جو دو ہفتے کے لیے اس انٹرنشپ پروگرام کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
انٹرن شپ مکمل کرنے والے ایک طالب علم محمد احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں پولیس کے نظام کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تھانہ کیسے کام کرتا ہے۔ پولیس کے ٹریننگ سینٹر کیسے چل رہے ہیں اور سیف سٹی کے کیمروں سے کیسے شہر کی حفاظت کی جا رہی ہے۔‘
انہوں نےبتایا کہ ’دوسرے ہفتے میں پولیس کے تفتیش کے نظام کو دیکھا کہ مختلف مقدمات کی تفتیش کیسے کی جاتی ہے۔ ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ کیسے پولیس دن رات کام کر رہی ہے۔ یہ دیکھنے کے بعد ہمیں نہیں سمجھ آرہی کہ پولیس کو لوگ غلط کیوں کہتے ہیں۔‘
ایک اور انٹرن بلال حسن کہتے ہیں کہ ’میں نے بطور رضا کار اس پروگرام میں شرکت کی۔ اور پولیس کے کام کو بہت قریب سے دیکھا جس سے ہمارے کئی طرح کے مغالطے دور ہوئے ہیں۔‘

ولیس کا انٹرن شپ پروگرام جسے ’فرینڈز آف پولیس‘ کا نام دیا گیا ہے یہ رضاکارانہ بنیادوں پر ہے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

اسی انٹرن شپ پروگرام میں شریک ایک طالبہ حمیرا ثانی کا کہنا ہے کہ ’میں پولیس کو جیسے دیکھتی تھی اس سے تو یہ مختلف ہے۔ ہمیں تفتیش کے مخلتف طریقوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ عوام میں جو پولیس کا خوف ہے اس کا ہونا بھی ضروری ہے تاہم جتنا لوگ پولیس کو برا کہتے ہیں یہ ویسے نہیں ہے۔‘
دو ہفتے کی انٹرن شپ میں شامل طلبا و طالبات کے تاثرات تو بظاہر بدلے ہیں اور ان کو اس پروگرام کے آخر میں سرٹیفیکیٹ بھی دیے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ انٹرن شپ پروگرام مسلسل جاری رکھا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر پولیس کے تقریبا تمام ڈیپارٹمنٹ متحرک ہیں پنجاب کے ہر ضلع کی پولیس کا اپنا فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے۔ ان اکاؤنٹس پر آئے دن پولیس کو تنقید اور تعریف دونوں کا سامنا رہتا ہے۔ تو کیا ایسے انٹرن شپ پروگرام سے پولیس کا تاثر بہتر ہو گا؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فوجداری قانون کے ماہر وکیل اور سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار شمیم ملک کہتے ہیں کہ ’پولیس کی جانب سے کوشش ہے۔ ظاہر ہے اچھی ہی ہو گی لیکن جب تک سروس ڈیلیوری نہیں ہو گی محص انٹرن شپس اور سوشل میڈیا سے تاثر ٹھیک نہیں ہوتے۔ لوگوں کو انصاف ملے اور پولیس کے عملی اقدمات سے ہی یہ تاثر ٹھیک ہو گا۔‘

سوشل میڈیا پر پولیس کے تقریبا تمام ڈیپارٹمنٹ متحرک ہیں پنجاب کے ہر ضلع کی پولیس کا اپنا فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

انہوں نےاپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’موجودہ حالات میں تو پاکستانی معاشرہ تو ویسے ہی سیاسی طور پر بہت منقسم ہے اور پولیس پر یہ تاثر بھی ہے کہ وہ سیاسی طور پر غیر جانبدار نہیں ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ ان پروگراموں سے کوئی بہت بڑے فوائد پولیس کو حاصل ہوں گے۔‘
یاد رہے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلی شہباز شریف نے پولیس کا عوام میں تاثر بہتر کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے پہنا جانے والا یونیفارم بھی بدل دیا تھا۔
کالے رنگ کی وردی سے زیتون رنگ کی وردی کا سفر تو طے ہوا لیکن پولیس کو آج بھی عوام سے اعتماد سازی کے لیے انٹرن شپ پروگرامز کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

شیئر: