لاہور کی سیشن عدالت کے بخشی خانے کے گیٹ پر معمول کا رش تھا اور قیدیوں کے لیے مخصوص گاڑیاں جیلوں سے لائے قیدیوں کو اُتار رہی تھیں۔
50 سالہ فاطمہ بی بی بھی اپنے بیٹے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے وہاں موجود تھیں۔ تاہم بخشی خانے پر کھڑا سنتری انہیں اندر نہیں جانے دے رہا تھا۔
ضلعی عدالتوں کے احاطے میں پیشی کے لیے لائے گئے قیدیوں کو عارضی طور پر رکھنے کے لیے بنائی گئی جیل نما بیرکوں کو بخشی خانے کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں ادویات کی قلت، ’بحران شدت اختیار کر جائے گا‘Node ID: 791311
-
گولڈ ’مافیا‘ کیا ہے اور یہ پاکستان میں کیسے کام کرتا ہے؟Node ID: 796471
سنتری نے فاطمہ بی بی کو اجازت تو نہ دی وہ وہیں کھڑے کھڑے اس بات کا انتظار کرنے لگیں کہ جب ان کے بیٹے کو عدالت میں پیش کیا جائے گا تو وہ اسے دیکھ لیں گی۔ تاہم ان کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہوئی کیونکہ جج کے چھٹی پر ہونے کی وجہ سے ان کے بیٹے کو بخشی خانے سے باہر لایا ہی نہیں گیا اور پھر قیدیوں والی گاڑی اسے واپس جیل لے گئی۔
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے فاطمہ بی بی نے بتایا کہ ’میرا بیٹا تین مہینے سے اندر ہے۔ جیل میں ہفتے میں ایک دن ملاقات ہوتی ہے تو ایک دن اس کی پیشی پر ملنے آ جاتی ہوں، اس طرح ایک ہفتہ چھوڑ کے دوسرے ہفتے بیٹے سے دو بار ملاقات ہو جاتی ہے۔‘
بخشی خانے کے باہر ایسے کئی مناظر دِکھائی دیتے ہیں کہ بیرکوں میں بند قیدیوں کے رشتے دار انہیں دور سے ہاتھ ہلا کر ان کا حال احوال جان رہے ہوتے ہیں۔
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے پنجاب کے جیل حکام کو ہدایت دی ہے کہ ٹرائل شروع ہونے سے پہلے جب قیدیوں کی صرف عدالتی حاضری لگوانا مقصود ہوتا ہے تو انہیں روز عدالتوں میں لانے کے بجائے ویڈیو لنک سے ان کی حاضری لگوائی جائے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی پیشی کی سہولت صرف مخصوص وقت میں دستیاب ہوتی ہے، یا تو کسی سیاستدان یا پھر کسی خطرناک ملزم کے لیے پیشی ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتی ہے۔

تاہم اب لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر محکمہ جیل خانہ جات عام قیدیوں کے لیے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی سہولت دینے جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے آئی جی جیل خانہ جات فاروق نذیر نے لاہور ہائی کورٹ کی جیل اصلاحات سے متعلق انتظامی کمیٹی کے سربراہ جسٹس شجاعت علی خان کو رپورٹ پیش کی کہ پنجاب کی تمام جیلوں میں ویڈیو لنک مکمل طور پر فنکشنل ہیں۔
کمیٹی کے سربراہ نے ہدایت کی کہ مقدمات کے ٹرائل کئی کئی مہینے شروع نہیں ہوتے اور قیدیوں کو محض حاضری کے لیے عدالت لانا وسائل کا ضیاع ہے۔
پاکستان کے قانون کے مطابق ٹرائل کے دوران ملزمان کا عدالت کے اندر حاضر ہونا ضروری ہے تاہم ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ایسی قدغن نہیں ہے۔
بخشی خانے کے باہر کھڑی فاطمہ بی بی سے جب پوچھا گیا کہ اب ان کے بیٹے کو ویڈیو کے ذریعے پیش کیا جائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جیل میں ملاقات مشکل ہوتی ہے۔ ادھر عدالت میں پھر بھی کافی وقت مل جاتا ہے اگر حکومت صرف یہ کر دے کہ یہاں ملاقات کے لیے جو مشکلات آتی ہیں وہ کم ہو جائیں تو ویڈیو کے بجائے عدالتوں میں ہی پیش کیا جائے تو اچھا ہے۔‘
ایک اور شہری محمد کلیم کا کہنا تھا کہ ’اچھا ہی ہے کہ ویڈیو سے پیش کر دیں یہاں بھی رشوت دے کر ملنا پڑتا ہے۔ ہم تو صرف خیر خیریت جاننے کے لیے آتے ہیں۔ عدالت میں سکرین لگی ہو گی وہاں نظر تو آ جائے گا کہ ہمارا بچہ ٹھیک ہے۔‘
