Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کے لائسنس کی تجدید کیوں نہ ہو سکی؟

ڈالر کی قیمت میں کمی کے بعد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے: فائل فوٹو فری پکس
وفاقی وزارت توانائی و پیداوار کی جانب سے پاکستان میں کام کرنے والی کار ساز کمپنیوں کے لائسنس کی منسوخی یا تجدید میں تاخیر کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا مقامی سطح پر گاڑیاں اسمبل کرنے والے پلانٹ بند ہونے جا رہے ہیں؟
 یہ وہ سوالات ہیں جو ان دنوں آٹو موٹیو مینوفیکچررز کے علاوہ پوری صنعت کی جانب سے پوچھے جا رہے ہیں۔
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچرر ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان نے اس بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں کام کرنے والی کار ساز کمپنیوں کے لائسنس منسوخ نہیں کیے گئے۔ حکومت کی آٹو پالیسی کی شرائط پوری نہ کرنے والی کمپنیوں کے لائسنسوں کی تجدید اب تک نہیں کروائی گئی اور ان کا درآمدی کوٹہ بھی منظور نہیں ہوسکا، جس کے بعد ان کمپنیوں نے وزارت سے رابطہ کیا ہے اور جلد ہی ان کا مسئلہ حل ہونے کی امید ہے۔‘
 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کسی بھی کمپنی کو کام کرنے سے نہیں روکا گیا۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں تمام کمپنیاں ناصرف حکومت کی پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں بلکہ صارفین کے لیے گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی کمی کی جا رہی ہے۔‘  
وفاقی وزارت توانائی و پیداوار کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مؤقف نہیں دیا گیا، تاہم وزارت کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ رواں ماہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزارت کی جانب سے طے شدہ پالیسی پر عملدرآمد نہ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں آٹو سیکٹر سمیت دیگر شعبوں میں وزارت اپنا کام کر رہی ہے، ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے تمام ادارے ایک پیج پر ہیں۔‘  
وہ کون سے احکامات ہیں جنہیں پورا نہ کرنے پر کار ساز کمپنیوں کے لائنسنس کی تجدید تاخیر کا شکار ہے؟ 

پاکستان میں اسمبل ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں مزید کمی ہوگی: آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن

سنہ 2021 میں پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ملک میں آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی کی منظوری دی گئی تھی۔ اس پالیسی کے تحت ملک میں کام کرنے والی کار ساز کمپنیوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں درآمدی اشیا کا دس فیصد برآمدات پر خرچ کریں گی۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ ہر سال 2 فیصد پر عملدرآمد ہوگا اور پانچ سال میں 10 فیصد کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ملک میں کام کرنے والی کئی کمپنیاں اس ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کے بعد ایک ہفتہ قبل وزارت توانائی اور پیداوار نے کار ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔  
یاد رہے کہ حکومت نے آٹو پالیسی 26- 2021 کے تحت پہلے صرف 850 یا اس سے کم ہارس پاور کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) ختم کرکے سیلز ٹیکس 17 سے کم کر کے 12.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بعد ازاں پاکستان میں تیار ہونے والی تمام چھوٹی بڑی گاڑیوں پر ٹیکس میں چھوٹ دے دی گئی تھی۔ 
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ ’موجودہ صورتحال میں گاڑی ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد ہونا مشکل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کام کرنے والی کارساز کمپنیاں ملک کی ضرورت پوری نہیں کر پا رہیں تو ایسے میں گاڑیوں کی برآمدات کا ہدف کس طرح حاصل ہو سکے گا؟‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں کار ساز کمپنیاں اس وقت بیرونِ ملک سے سامان درآمد کرکے گاڑیاں مینوفیکچر کر رہی ہیں۔ کیا وہ بیرونِ ملک سے درآمد کیے گئے سامان سے گاڑیاں تیار کرکے واپس باہر بھیجیں گی؟‘
’وہ اگرایکسپورٹ کرتی بھی ہیں تو کس ریٹ پر کریں گے کیونکہ ملک سامان لانے اور گاڑی کو تیار کرنے کے بعد اس کی جو لاگت ہوگی، کیا وہ برآمدات میں مل سکے گا؟ یہ اس وقت ہوتا نظر نہیں آرہا۔ حکومت کو چاہیے کہ کار ساز کمپنیوں کو پہلے تو مقامی سطح پر گاڑیاں تیار کرنے کی جانب راغب کیا جائے تاکہ ملک میں بھی گاڑی سستی ہو اور اگر ایکسپورٹ بھی کرنی ہو تو اس کی قیمت مناسب ہو۔‘ 

پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے میں مختلف مسائل کی وجہ سے گاڑیوں کے پلانٹ متعدد بار کچھ دیر کے بند کیے گئے: فائل فوٹو فری پکس

 ایچ ایم شہزاد کے مطابق رواں ماہ کے آغاز پر وفاقی کابینہ کے ایک اہم اجلاس میں یہ بات اٹھائی گئی تھی کہ آٹو سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیاں پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنا رہیں جس کے بعد وزارت حرکت میں آئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ آٹو سیکٹر پر سختی کی جائے۔ اس بارے میں کیے گئے اقدامات کے بعد لائنسس کی تجدید سمیت دیگر معاملات سامنے آئے ہیں۔ البتہ اطلاعات ہیں کہ کار ساز کمپنیوں اور حکومت کے درمیان معاملات جلد طے پا جائیں گے۔   
 انہوں نے مزید کہا کہ ’اس اجلاس میں کیے گئے سخت فیصلوں کے بعد کارساز کمپنیوں نے اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں اسیمبل ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں مزید کمی ہوگی۔‘ 
 واضح رہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی کارساز کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قیمت میں کمی کے بعد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب تک تین بڑی کمپنیوں کی جانب سے اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کی جا چکی ہے۔
انڈس موٹرز ( ٹویوٹا ) اور کیا موٹرز کے بعد ہنڈا کی جانب سے بھی اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نئی قیمتیں جاری کی گئی ہیں جن میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

شیئر: