Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیڈلائن کا آخری دن: چمن اور طورخم بارڈرز پر افغان خاندانوں کی قطاریں

پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ملک سے جانے کے لیے دی گئی حکومتی ڈیڈ لائن آج ختم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے افغانستان کے ساتھ بارڈر کراسنگ پر واپس جانے والے افغان باشندوں کا رش لگا ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو واپس جانے کے حکم کے بعد اب تک رضاکارانہ طور پر ہزاروں افغان باشندے وطن واپس جا چکے ہیں۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق صرف طورخم کے راستے 90 ہزار سے زائد افغان وطن واپس گئے ہیں۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق پاک افغان چمن سرحد پر ایک ماہ کے دوران سب سے زیادہ رش منگل کو دیکھا گیا۔
پشاور میں اردو نیوز کے نامہ نگار فیاض احمد کے مطابق طورخم بارڈر پر رش کے باعث لنڈی کوتل کے مقام پر عارضی انتظار گاہ قائم کی گئی ہے جہاں افغانستان جانے والے خاندانوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے بعد انہیں آگے جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
ضلع خیبر کی انتظامیہ کا کہنا ہے 30 اکتوبر کو تین سو سے زائد گاڑیوں میں افغانوں نے بارڈر کراس کیا جبکہ ڈیڈلائن ختم ہونے پر گاڑیوں کا رش بھی بڑھ رہا ہے۔

گذشتہ رات ایک ہزار افراد کو ہولڈنگ کیمپس میں رہائش دینے کے بعد منگل کی صبح افغانستان روانہ کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

لنڈی کوتل میں موجود افغان باشندوں کو رش کے باعث مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو کھلے آسمان تلے رات بھر گاڑیوں میں انتظار کرنا پڑا۔
افغان تارکین وطن نے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ طورخم پر سکریننگ کے مرحلے کو مزید تیز کیا جائے تاکہ ان کو گھنٹوں انتظار نہ کرنا پڑے۔

چمن بارڈر پر افغان شہریوں کا رش

بلوچستان سے بھی حکومتی مہلت کے آخری دن غیر قانونی افغان تارکین وطن کی رضا کارانہ واپسی میں تیزی دیکھی گئی۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق پاک افغان چمن سرحد پر ایک ماہ کے دوران سب سے زیادہ رش منگل کو دیکھا گیا ۔
سینکڑوں افغان باشندے پک اپ، مزدا گاڑیوں اور ٹرکوں میں گھریلو سامان اور مال مویشی سمیت اپنا سب کچھ لاد کر سرحد پار جا رہے ہیں۔
صوبائی حکومت کے مطابق اب تک چمن کے راستے 30 ہزار سے زائد افغانستان واپس جا چکے ہیں۔
چمن کے ڈپٹی کمشنر راجہ اطہر عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ سرحدی شہر چمن میں بوائنز ڈگری کالج اورجمال عبدالناصر شہید فٹبال اسٹیڈیم میں دو ہولڈنگ کیمپس قائم کردیے گئے۔
پچیس ایکڑ اراضی پر مشتمل ان کیمپوں میں خیمے لگا کر رہائش، میڈیکل کیمپ، خوراک اور دیگر سہولیات کا بندوبست کیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کے مطابق اب تک چمن کے راستے 30 ہزار سے زائد افغانستان واپس جا چکے ہیں(فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ رات ایک ہزار افراد کو ہولڈنگ کیمپس میں رہائش دینے کے بعد منگل کی صبح افغانستان روانہ کیا گیا۔ مقامی صحافیوں کے مطابق منگل کو واپس جانے والوں میں زیادہ تر کراچی اور سندھ میں رہائش پذیر افغان باشندوں کی تھی جبکہ کوئٹہ، کچلاک اور پشین میں کئی دہائیوں سے قانونی اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے بھی واپس گئے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق ان کیمپوں میں نادرا کی چار چار موبائل گاڑیوں کی مدد سے تارکین وطن کی رجسٹریشن اور بائیو میٹرک کی جارہی ہے تاکہ انہیں سرحد پر انتظار کرائے بغیر بجھوایا جاسکے۔
منگل کو کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غور نے محکمہ داخلہ کوئٹہ کا دورہ کیا اور تارکین وطن کی وطن واپسی کے عمل سے متعلق امور کا جائزہ لیا اور انتظامات کو سراہا۔
محکمہ داخلہ کے حکام کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان زاہد سلیم کی سربراہی میں محکمہ داخلہ نے تارکین وطن کی واپسی سے متعلق صوبائی سطح پر حکمت عملی ترتیب دے دی ہے اور ایک کنٹرول روم بھی قائم کردیا ہے۔
اس کنٹرول روم میں پاک فوج، ایف سی،اسپیشل برانچ اور نادرا سمیت تمام متعلقہ محکموں کے نمائندے بیٹھ کر غیرملکیوں کے انخلاء کے عمل کی نگرانی کررہے ہیں۔
اندرون بلوچستان کے علاوہ سندھ اور پنجاب سے غیرملکیوں کی چمن سرحد کی طرف ٹرانزٹ کے نگرانی اور کوآرڈینیشن بھی یہی سے کی جارہی ہے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق چمن کے علاوہ چاغی سے ملحقہ افغان سرحد سے بھی تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ سرحد سے ملحقہ سات اضلاع میں ہولڈنگ کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔
نگران صوبائی وزیراطلاعات جان محمد اچکزئی نے منگل کو کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مہلت ختم ہونے کے بعد بدھ سے غیرملکی تارکین وطن کی گرفتاری اور جبری بے دخلی  کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ غیرملکیوں کی جائیدادیں سیل کرنے کا عمل بھی شروع کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں غیرملکیوں کی جائیدادوں کی نشاندہی بھی کرلی گئی ہے۔

چمن کے علاوہ چاغی سے ملحقہ افغان سرحد سے بھی تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے(فوٹو: اے ایف پی)

غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو پناہ، ملازمت یا سہولت فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
جان اچکزئی نے بتایا کہ بلوچستان حکومت پنجاب اورسندھ سے آنیوالے تارکین وطن کو بھی سہولیات فراہم کرکے انہیں سرحد تک پہنچا رہی ہے۔
ادھر کوئٹہ میں افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی کے خلاف سیاسی جماعتوں نے احتجاجی ریلی نکالی اور باچا خان چوک پر جلسہ کیا۔ احتجاج کی کال عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خوشحال گروپ ، پشتون تحفظ موومنٹ اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ نے دی تھی۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، پشتونخوامیپ کے سربراہ خوشحال کاکڑ اور دیگر رہنماؤں نے افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی کی مذمت کی اور کہا کہ حکومت پاکستان پناہ گزینوں سے متعلق عالمی قوانین پر عمل کرے اور دہائیوں سے رہائش پزیر پناہ گزینوں کو زبردستی بھیجنے کا عمل بند کرے۔

نگراں وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ یکم نومبر سے چمن سرحد پر ہر صورت ون ڈاکیومنٹ رجیم یعنی پاسپورٹ اور ویزا کا اطلاق ہو گا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ چالیس سالوں سے پناہ دینے کے بعد اب پناہ گزینوں کو اپنا سب کچھ اونے پونے فروخت کرنے  اوران کے بچوں کو تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔انہیں کاروبار سمیٹنے بھی نہیں دیا جارہا ہے اس عمل سے نفرتوں میں اضافہ ہو گا ۔

چمن میں پاسپورٹ، ویزہ کی شرط کے خلاف دھرنا

دوسری جانب بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان سرحد کے قریب بھی گیارہ روز سے دھرنا جاری ہے۔ مزدور، تاجر تنظیموں اور آل پارٹیز کی جانب سے دیئے گئے دھرنے کے شرکاء چمن سمیت دونوں جانب کے سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو پناہ، ملازمت یا سہولت فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی(فوٹو: اے ایف پی)

مظاہرین کا کہنا ہے کہ چمن، سپین بولدک اور قندھار کے رہائشیوں پر ویزے اور پاسپورٹ کی شرط عائد ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگ کا روزگاراور کاروبار متاثر ہوگا اور وہ سرحد پار اپنے رشتہ داروں سے باآسانی نہیں مل سکیں گے۔
تاہم نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ یکم نومبر سے چمن سرحد پر ہر صورت ون ڈاکیومنٹ رجیم یعنی پاسپورٹ اور ویزا کا اطلاق ہو گا۔

شیئر: