Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن: ویزہ، پاسپورٹ کی شرط کے خلاف افغان سرحد کے قریب 10 روز سے دھرنا

بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط کے اطلاق کے خلاف احتجاجی دھرنا گذشتہ 10 دنوں سے جاری ہے۔
آل پارٹیز کی جانب سے چمن میں سرحد کے قریب دیے گئے دھرنے میں مزدور، تاجر اور سیاسی رہنماؤں سمیت 25 سے زائد تنظیمیں اور جماعتیں شریک ہیں۔
دھرنے کے شرکا سرحد کے قریبی علاقوں کے باشندوں کو پہلے کی طرح پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ پر آمدروفت کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے 76 برسوں میں پہلی بار یکم نومبر سے چمن پاک افغان سرحد پر آمدروفت کو مکمل دستاویزی شکل دینے اور پاسپورٹ اور ویزا کو لازمی قرار دیا ہے۔
 اس سے پہلے چمن کے رہائشیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جب کہ افغان سرحدی شہر بولدک اور صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو افغان شناختی دستاویز تذکرہ پر آنے جانے کی اجازت تھی۔
پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ اس رعایت کو غلط استعمال کیا جارہا تھا اور اس آڑ میں افغانستان کے باقی علاقوں کے لوگ بھی غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ اس طرح دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔
پاکستانی حکومت کے فیصلے کے خلاف سرحد پر انحصار کرنے والے مزدوروں اور تاجروں نے 21 اکتوبر سے دھرنا دے رکھا ہے جس کی حمایت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی مقامی قیادت نے کر رکھی ہے۔
دھرنے کے شرکا نے 26 اکتوبر کو ریلی نکالی اور چمن کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ اس ریلی کو شہر کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا گیا۔ دھرنے میں زیادہ تر مزدور اور چھوٹے تاجر شریک ہیں جن کا روزگار اور کاروبار سرحد سے وابستہ ہیں۔
مظاہرین کی بڑی تعداد رات بھی دھرنے میں گزارتی ہے۔
احتجاج میں شریک عبداللہ اچکزئی کا انحصار افغان سرحد پر چھوٹے پیمانے پر اشیا کی سمگلنگ پر ہے۔

چمن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئی تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ (فوٹو: فیس بک)

وہ کہتے ہیں کہ پہلے دن میں دو تین ہزار روپے سامان کی ترسیل سے کما لیتے تھے لیکن اب حکومت کی افغان سرحد پر نئی سخت پالیسیوں سے وہ بے روزگار ہو گئے ہیں۔
عبداللہ کی طرح ان چھوٹے سمگلرز کو مقامی زبان میں لغڑی کہتے ہیں۔ لغڑیوں کو پہلے حکومت نے ہاتھوں میں سامان سرحد پار لے جانے اور لانے کی اجازت دے رکھی تھی تاہم اب ان کے لیے بھی پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
انجمن تاجران کے صدر احمد خان نے کہا کہ احتجاج میں شریک افراد دو وقت کی روٹی چھن جانے کے ڈر سے سڑکوں پر نکلے ہیں، یہ لوگ گذشتہ 10 دنوں سے اس دھوپ میں مجبوری کی وجہ سے بیٹھے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئی تو چمن کے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔
احتجاج میں شریک پشتونخوا میپ کے ضلعی سیکریٹری صحبت خان اچکزئی نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر چمن سے لے کر قندھار تک دونوں جانب زیادہ تر ایک ہی نسل، زبان اور قوم کے لوگ آباد ہیں۔
’سرحد اور اس پر لگنے والی باڑ نے ان قبائل کو تقسیم کر دیا ہے تاہم ان کے درمیان رشتہ داریاں برقرار ہیں۔ ایک بھائی یہاں رہتا ہے ایک بھائی وہاں رہتا ہے۔ ہمارا اپنا قبرستان افغانستان میں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سرحد ی علاقوں کے لوگ انگریز دور، متحدہ ہندوستان اور پھر قیام پاکستان کے بعد سے آج تک آزادانہ آتے جاتے رہے ہیں۔

جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ حکومت نے اصولی فیصلہ کرلیا ہے کہ اب سرحد پر آمدروفت صرف پاسپورٹ اور ویزے پر ہی ہوگی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’76 برسوں میں کسی پاکستانی حکومت نے اس قسم کی پابندی نہیں لگائی۔ اب نگراں حکومت نے سرحدی علاقوں کے لوگوں کے لیے بھی پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے دیا ہے۔‘
صحبت خان اچکزئی کے مطابق سرحد کے قریب رہنے والوں کو ہر جگہ رعایت دی جاتی ہے۔ پاکستانی حکومت کو بھی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
حاجی عبدالباری زمیندار ہیں اور گذشتہ کئی روز سے دھرنے میں شریک ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب ہماری زمین ہے۔ چند برس پہلے لگنے والی باڑ کی وجہ سے ہماری آدھی زمین پاکستان اور آدھی افغانستان میں رہ گئی۔
حاجی عبدالباری کے بقول پاکستان کی جانب زیرزمین پانی بہت نیچے یعنی 100 گز پر ہے جبکہ افغانستان میں پانی 30 گز پر ہے۔ ہم نے سرحد کے قریب افغان علاقے میں اپنی زمین پر زراعت شروع کی اور اس پر لاکھوں روپے خرچ کر دیے۔ 20 برس سے اس پر محنت کررہے ہیں اب ہماری یہ ساری محنت ضائع ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گھر چمن میں اور زمین افغانستان میں ہیں۔
’ہمیں زمین کی دکھ بھال کے لیے روزانہ افغانستان آنا جانا ہوتا ہے اب ہمیں کہا جا رہا ہے کہ آپ پاسپورٹ پر ویزا لگا کر افغانستان جائیں گے جبکہ ویزا دو ماہ میں ملتا ہے۔ ہماری پیاز اور تمباکو کی فصل تباہ ہو رہی ہے۔‘
حاجی عبد الباری کا کہنا تھا کہ ہم صدیوں سے اس زمین پر آباد ہیں پہلے کبھی اس طرح کی سخت شرائط عائد نہیں کی گئیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرحد کے قریب آباد مقامی لوگوں کو رعایت دی جائے اور ان کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط ختم کی جائے۔
دوسری جانب نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت نے اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ اب پاک افغان سرحد پر آمدروفت صرف پاسپورٹ اور ویزے پر ہی ہوگی اس کے علاوہ کوئی دستاویز نہیں مانی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ آزادانہ نقل و حرکت کی آڑ میں دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر بھی پاکستان میں داخل ہورہے تھے اب یہ سلسلہ مزید جاری نہیں رہ سکتا۔
جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کو بارڈر پر مارکیٹ، سکول، ہسپتال جیسے مطالبات کرنے چاہیے۔

شیئر: