بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط کے اطلاق کے خلاف احتجاجی دھرنا گذشتہ 10 دنوں سے جاری ہے۔
آل پارٹیز کی جانب سے چمن میں سرحد کے قریب دیے گئے دھرنے میں مزدور، تاجر اور سیاسی رہنماؤں سمیت 25 سے زائد تنظیمیں اور جماعتیں شریک ہیں۔
دھرنے کے شرکا سرحد کے قریبی علاقوں کے باشندوں کو پہلے کی طرح پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ پر آمدروفت کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
-
-
چمن: پاسپورٹ کی شرط کیخلاف افغان سرحد کے قریب 4 روز سے دھرنا
Node ID: 806226
پاکستانی حکومت نے 76 برسوں میں پہلی بار یکم نومبر سے چمن پاک افغان سرحد پر آمدروفت کو مکمل دستاویزی شکل دینے اور پاسپورٹ اور ویزا کو لازمی قرار دیا ہے۔
اس سے پہلے چمن کے رہائشیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جب کہ افغان سرحدی شہر بولدک اور صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو افغان شناختی دستاویز تذکرہ پر آنے جانے کی اجازت تھی۔
پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ اس رعایت کو غلط استعمال کیا جارہا تھا اور اس آڑ میں افغانستان کے باقی علاقوں کے لوگ بھی غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ اس طرح دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔
پاکستانی حکومت کے فیصلے کے خلاف سرحد پر انحصار کرنے والے مزدوروں اور تاجروں نے 21 اکتوبر سے دھرنا دے رکھا ہے جس کی حمایت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی مقامی قیادت نے کر رکھی ہے۔
دھرنے کے شرکا نے 26 اکتوبر کو ریلی نکالی اور چمن کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ اس ریلی کو شہر کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا گیا۔ دھرنے میں زیادہ تر مزدور اور چھوٹے تاجر شریک ہیں جن کا روزگار اور کاروبار سرحد سے وابستہ ہیں۔
مظاہرین کی بڑی تعداد رات بھی دھرنے میں گزارتی ہے۔
احتجاج میں شریک عبداللہ اچکزئی کا انحصار افغان سرحد پر چھوٹے پیمانے پر اشیا کی سمگلنگ پر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پہلے دن میں دو تین ہزار روپے سامان کی ترسیل سے کما لیتے تھے لیکن اب حکومت کی افغان سرحد پر نئی سخت پالیسیوں سے وہ بے روزگار ہو گئے ہیں۔
عبداللہ کی طرح ان چھوٹے سمگلرز کو مقامی زبان میں لغڑی کہتے ہیں۔ لغڑیوں کو پہلے حکومت نے ہاتھوں میں سامان سرحد پار لے جانے اور لانے کی اجازت دے رکھی تھی تاہم اب ان کے لیے بھی پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
انجمن تاجران کے صدر احمد خان نے کہا کہ احتجاج میں شریک افراد دو وقت کی روٹی چھن جانے کے ڈر سے سڑکوں پر نکلے ہیں، یہ لوگ گذشتہ 10 دنوں سے اس دھوپ میں مجبوری کی وجہ سے بیٹھے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئی تو چمن کے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔
احتجاج میں شریک پشتونخوا میپ کے ضلعی سیکریٹری صحبت خان اچکزئی نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر چمن سے لے کر قندھار تک دونوں جانب زیادہ تر ایک ہی نسل، زبان اور قوم کے لوگ آباد ہیں۔
’سرحد اور اس پر لگنے والی باڑ نے ان قبائل کو تقسیم کر دیا ہے تاہم ان کے درمیان رشتہ داریاں برقرار ہیں۔ ایک بھائی یہاں رہتا ہے ایک بھائی وہاں رہتا ہے۔ ہمارا اپنا قبرستان افغانستان میں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سرحد ی علاقوں کے لوگ انگریز دور، متحدہ ہندوستان اور پھر قیام پاکستان کے بعد سے آج تک آزادانہ آتے جاتے رہے ہیں۔
