Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکٹیبلز کی شمولیت، ن لیگ بلوچستان میں حکومت بنا سکے گی؟

تجزیہ کار شاہد رند کے مطابق ’یہ سب لوگ صرف اس وجہ سے جا رہے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ اقتدار میں آ سکتی ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان کے درجن سے زائد سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کی ہامی بھر لی ہے۔
پارٹی کی صوبائی قیادت کا کہنا ہے کہ یہ الیکٹیبلز نواز شریف کی آئندہ چند دنوں میں کوئٹہ آمد کے موقع پر باقاعدہ شمولیت کا اعلان کریں گے۔
مسلم لیگ ن میں جانے کے خواہش مند زیادہ تر سابق ایم این ایز اور ایم پی ایز کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان الیکٹیبلز کی شمولیت سے مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات میں بلوچستان سے دوبارہ بڑی پارلیمانی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے رواں ہفتے کوئٹہ کا دو روزہ دورہ کیا اور الیکٹیبلز کے ساتھ معاملات طے کر لیے۔
اس حوالے سے مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر شیخ جعفر خان مندوخیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’18 الیکٹیبلز نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تاہم وہ باقاعدہ اعلان نواز شریف کی کوئٹہ آمد کے موقع کریں گے۔ان کے بقول چار دیگر الیکٹیبلز کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے۔‘
ن لیگ کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ یہ سبھی سابق ایم پی ایز اور ایم این ایز ہیں اور ان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔
شیخ جعفر مندوخیل کے مطابق ’سابق وزیراعلٰی جام کمال خان کے ساتھ بھی معاملات طے پا گئے ہیں، وہ ن لیگ کا حصہ بنیں گے جبکہ لشکری رئیسانی کو بھی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں لیگی وفد نے جا کر شمولیت کی دعوت دی، انہوں نے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔‘
جعفر خان مندوخیل نے الیکٹیبلز کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جن افراد نے ان کے عشائیے میں شرکت کی وہ سب ن لیگ کا حصہ بن چکے ہیں۔

شیخ جعفر مندوخیل کے مطابق ’سابق وزیراعلٰی جام کمال خان کے ساتھ بھی معاملات طے پا گئے ہیں۔‘ (فوٹو: ایکس)

عشائیے میں نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کے بھائی اور سبی سے سابق رکن قومی اسمبلی میر دوستین ڈومکی، جعفرآباد سے سابق رکن قومی اسمبلی محمد خان جمالی، بارکھان سے سابق رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران، نصیرآباد سے سابق رکن صوبائی اسمبلی میر عبدالغفور لہڑی اور ان کے بھائی سابق ایم پی اے محمد خان لہڑی نے شرکت کی۔
سابق ایم پی اے لورالائی محمد خان اوتمانخیل، خاران کے سابق ایم پی اے میر کریم نوشیرانی، دکی کے سابق ایم پی اے سردار مسعود لونی، ڈیرہ بگٹی سے سابق رکن صوبائی اسمبلی طارق مسوری بگٹی، چاغی کے سابق ایم پی اے میر مجیب الرحمان محمد حسنی اور مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی ربابہ بلیدی بھی عشائیہ میں شریک ہوئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’سابق صوبائی وزرا نور محمد دمڑ، عاصم کرد گیلو کے بھی ن لیگ کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں ۔اسی لیے انہوں نے اپنے حلقوں سے میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے قافلے بھی لاہور بجھوائے۔‘
سنہ 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر نو امیدوار کامیاب ہوئے تھے تاہم آزاد امیدواروں کی شمولیت اور مخصوص نشستیں ملنے کے بعد مسلم لیگ ن 20 ارکان کے ساتھ بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی، اور اس نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کےساتھ اتحاد کر کے مخلوط حکومت بنائی تھی۔
لیکن سنہ 2018 کے انتخابات میں اس کے صرف ایک امیدوار نواب ثنا اللہ زہری کامیاب ہوئے جو بعد ازاں پارٹی سے منحرف ہو گئے۔

سنہ 2018 کے انتخابات میں بلوچستان سے ن لیگ کے صرف ایک امیدوار نواب ثنا اللہ زہری کامیاب ہوئے جو بعد ازاں پارٹی سے منحرف ہو گئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کیا پارلیمانی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے ان شخصیات کی شمولیت سے مسلم لیگ ن فروری 2024 کے انتخابات میں دوبارہ بلوچستان سے نمایاں کامیابی حاصل کر سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب تجزیہ کاروں نے اثبات میں دیا ہے۔
تجزیہ کار شاہد رند کا خیال ہے کہ ن لیگ سنہ 2013 جیسی اچھی پوزیشن تو حاصل نہیں کر سکے گی تاہم مخصوص نشستوں کو ملا کر 15 کے قریب نشستیں حاصل کر کے بہتر پوزیشن پر آ سکتی ہے۔
سینئر صحافی سید علی شاہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان الیکٹ ایبلز کی شمولیت سے مسلم لیگ ن کے مردہ گھوڑے میں دوبارہ جان پڑ جائے گی اور وہ آئندہ انتخابات میں بڑی پارلیمانی جماعت بن جائے گی۔
گذشتہ برس کے آخر میں باپ اور پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی سمیت کئی اہم شخصیات نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ ان میں ظہور بلیدی، نوابزادہ نعمت اللہ زہری، سلیم کھوسہ، عارف حسنی اور آغا شکیل احمد شامل تھے۔
ان افراد کی شمولیت کے بعد پیپلز پارٹی میں مزید الیکٹ ایبلز کی شمولیت کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم اب رواں برس کے وسط میں ہواؤں کا رخ ن لیگ کی طرف ہو گیا۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے سید علی شاہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں الیکٹ ایبلز کی ہمیشہ سے ایک بڑی تعداد ایسی رہی ہے جو ہر انتخابات سے پہلے ایسی جماعت میں جانا چاہتے ہیں جس کا مرکز یا صوبے میں آنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما سردار ایاز صادق نے رواں ہفتے کوئٹہ کا دو روزہ دورہ کیا اور الیکٹ ایبلز کے ساتھ معاملات طے کر لیے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شاہد رند کا کہنا ہے کہ ’یہ سب لوگ صرف ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے نہیں جا رہے بلکہ صرف اس وجہ سے جا رہے ہیں کہ مرکز میں ن لیگ کی ہوا چل رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ اقتدار میں آ سکتی ہے۔‘
سنہ 2018 کے اوائل میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے بیشتر ارکان اسمبلی نے بغاوت کر کے صوبے میں اپنی ہی جماعت کی حکومت گرا دی تھی اور پھر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھ دی۔ جولائی 2018 کے انتخابات میں باپ نے کامیاب ہو کر صوبے میں مخلوط حکومت بنائی۔
مشکل وقت میں ن لیگ کا ساتھ چھوڑنے والے باپ پارٹی کے اراکین کو دوبارہ ن لیگ کیوں اپنی صفوں میں شامل کر رہی ہے۔ اس حوالے سے سید علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہی سوال جب صحافیوں نے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما سردار ایازصادق سے کیا تو انہوں نے ’ماضی بھولنے کی بات کی‘، اس سے پتہ چل رہا ہے کہ ن لیگ نے بھی صورتحال سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور وہ صرف اپنی پارلیمانی حیثیت بڑھانا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے بلوچستان کو صوبے کی حیثیت ملی ہے یہ الیکٹ ایبلز پارٹیاں بدل بدل کر حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
شاہد رند کے مطابق ’مرکز کی جماعتوں، خاص کر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے کبھی بھی بلوچستان میں اپنی جماعت کو مضبوط نہیں کیا اور نہ انہوں نے اپنے ہوم گراؤنڈ سے باہر نکل کر کھیلا ہے، اس لیے یہ جماعتیں ہمیشہ ان الیکٹ ایبلز پر انحصار کرتی ہیں۔‘

ن لیگ کی صوبائی قیادت کے مطابق یہ الیکٹ ایبلز نواز شریف کی آئندہ چند دنوں میں کوئٹہ آمد کے موقع پر باقاعدہ شمولیت کا اعلان کریں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شاہد رند ان الیکٹ ایبلز کو ن لیگ کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ن لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے پنجاب کے ساتھ ساتھ کم از کم ایک اور صوبے میں اپنی حکومت بنانی ہو گی۔
’مسلم لیگ ن کو بظاہر نظر آ رہا ہے کہ سندھ اور خیبر پختونخوا بڑا چیلنج ہیں اور بلوچستان میں ان کی اپنی جماعت مضبوط بھی نہیں، اس لیے وہ یہاں کے الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملا کر جسٹیفائی کرنا چاہے گی کہ ن لیگ لیڈنگ پوزیشن میں ہے۔‘
شاہد رند کے مطابق ایک رائے یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں حکومت بنانے موقع ملتا ہے تو اس کی پہلی ترجیح قوم پرست ہو گے۔ میرے خیال سے ضرور نواز شریف کے ذہن میں یہ خیال ہو گا لیکن ہمیں سنہ 2013 اور 2023 کے فرق کو سمجھنا ہو گا۔
’جب ہم اس فرق کو سمجھیں گے تو تب ہی ہمیں اندازہ ہو گا کہ نواز شریف نے ماضی سے کچھ سیکھا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے بہت سے حلقوں میں یہ سوال موجود ہے کہ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگلی لڑائی کب ہو گی۔
’لڑائی کب ہو گی، کیوں ہو گی اور کیسے ہو گی؟ میں اس کی کوئی پیشگوئی تو نہیں کرسکتا لیکن نواز شریف کے رویے میں لچک یا پھر رجعت پسندی کا صحیح اندازہ بلوچستان سے ہی ہو گا کہ وہ اس صوبے میں حکومت سازی کے وقت کیا کرتے ہیں۔‘

شیئر: