Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ نے فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں سے نمٹنے کا نیا منصوبہ بنا لیا

لوگوں کو جرم کے بارے میں سوچنے پر بھی گرفتار کرنا برطانیہ کا طریقہ کبھی نہیں رہا۔ (فوٹو:اے ایف پی)
برطانوی حکومت نے فلسطین کے حق میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے دوران قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے قوانین کا دائرہ کار وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اتوار کو برطانوی اخبار دی اوبزرور کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ان کے پاس کئی ایسی دستاویزات ہیں جن کے تحت برطانیہ میں موجود مسلمانوں، مسلم کونسل آف برطانیہ اور فلسطین کے حامی گروپوں کو شدت پسند قرار دیا سکتا ہے۔‘
اس کے علاوہ برطانیہ میں کام کرنے والی فلسطین حامی تنظیم ’فلسطین ایکشن‘ اور مسلم انگیجمنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ‘ کو بھی شدت پسند قرار دیا جا سکتا ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق حکومت کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ ’انتہا پسندی کی نئی تعریف کے تحت ریاست پر کی جانے والی جائز تنقید پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔‘
یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب برطانوی حکومت غزہ پر حملے میں اسرائیل کی حمایت کر دی ہے، جبکہ لندن اور دیگر برطانوی شہروں میں چار ہفتوں سے فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے برطانیہ کی ہوم سیکریٹری سویلا براورمین نے لاکھوں مظاہرین کو ’ہیٹ مارچرز‘ (نفرت کو بڑھاوا دینے والے) قرار دیا جس پر تنازع کھڑا ہو گیا۔
برطانوی اخبار کے مطابق ’انتہا پسندی ایک ایسے نظریے کو فروغ دے رہی ہے جس کا مقصد برطانوی پارلیمانی نظام اور اقدار کو کمزور کرنا ہے۔‘
اخبار کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ’ان کا مقصد لوگوں کے حقوق کو خطرے میں ڈالنا اور نفرت انگیز ماحول پیدا کرنا ہے۔‘
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ’سٹیک ہولڈرز اب تک اس بات پر متفق ہیں کہ یہ انتہا پسندی کی شناخت کے لیے ایک واضح حد ہے۔ لیکن ابھی تک انتہا پسندی کی نئی تعریف پر عوام کی جانب سے کوئی رائے سامنے نہیں آئی۔‘
انسانی حقوق کی نگراں ڈائریکٹر اکیکو ہارٹ نے انتہا پسندی کی تعریف کے نئے مجوزے کو خطرناک قرار دیا ہے۔
انہوں نے برطانوی اخبار دی آبزرور کو بتایا کہ ’انتہا پسندی کی تعریف کو نئی شکل دینے سے لوگوں کو آزادی اظہار رائے کے حق کا جائز استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔‘
 ’جبکہ یہ حکومت کو کمیونٹی گروپس، خیراتی اداروں یا مذہبی گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی اجازت دیتی ہے جن سے وہ متفق نہیں ہیں۔‘
اکیکو ہارٹ نے سنسرشپ کے ایڈیٹر مارٹن برائٹ کی رائے کو دوہرایا کہ ’یہ آزادی اظہار رائے پر ایک حملہ ہے اور ممکنہ طور پر ہر سٹوڈنٹس، بنیاد پرست اور کسی بھی انقلابی کو مجرم قرار دے گا۔‘
’لوگوں کو جرم کے بارے میں سوچنے پر بھی گرفتار کرنا برطانیہ کا طریقہ کبھی نہیں رہا۔‘


اکیکو ہارٹ نے انتہاہ پسندی کی تعریف کے نئے مجوزے کو خطرناک دیا ہے۔ (فوٹو: فلسطین ایکشن)

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی نسلی انصاف کے ڈائریکٹر الیاس ناگدی نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ ’ انتہا پسندی کی اس نئی تعریف کو لاگو نہیں کیا جانا چاہیے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ’انتہا پسندی کی تعریف اور انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں میں اس کا استعمال پہلے ہی اس قدر وسیع پیمانے پر کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگوں کو منظم اور متحرک ہونے سے روکنا چاہتا ہے۔ انتہا پسندی کی نئی تعریف اس کو مزید آگے لے جاتی ہے اور کسی بھی اختلاف کو جرم قرار دے سکتی ہے۔‘
ایم سی بی نے برطانوی اخبار دی ابزرور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت اپنے انتہا پسندوں کو چیلنج کرے جو کمیونٹیز کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔‘
برطانیہ میں فلسطین کی حامی تنظیم فلسطین ایکشن کا کہنا تھا کہ ’یہ نئی تعریف واضح طور پر ہماری تحریک کو کمزور کرنے اور ڈرانے کی کوشش ہے۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
دوسری جانب حکومتی ترجمان نے کہا کہ ’انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے، گذشتہ برسوں میں ہمیں تقسیم کرنے والوں سے نمٹنے کے خلاف ہم نے ایکشن بھی لیے ہیں۔ ہم انتہا پسندی اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘

شیئر: