فضائی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فلسطینی یکجہتی مہم کے زِیراہتمام مارچ کے لیے ایک بڑا ہجوم نکل رہا ہے۔ یہ احتجاج وزیراعظم رشی سنک کے ڈاؤننگ سٹریٹ دفتر سے گزرنے کے بعد پارلیمنٹ کے ایوانوں کے باہر ختم ہونا تھا۔
امریکی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے برطانوی حکومت نے نہ صرف سیزفائز کا مطالبہ مسترد کیا بلکہ انسانی بنیادوں پر غزہ کے لوگوں کے لیے امداد پہنچانے میں تعطل کی بھی حمایت کی۔
برطانیہ نے سات اکتوبر کو عسکریت پسند گروہ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے۔ اسرائیل کے مطابق اس حملے میں 14 سو افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
مظاہرین میں سے ایک کیملی ریویلٹا نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عالمی طاقتیں اس لمحے میں ٹھیک سے کام نہیں کر رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں ہیں: ہم جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، فلسطینیوں کے حقوق، زندہ رہنے کا حق، انسانی حقوق، ہمارے تمام حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ حماس کے متعلق نہیں ہے بلکہ فلسطینیوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے ہے۔‘
گذشتہ ہفتے دارالحکومت میں ایک اور فلسطین کے حق میں نکلنے والے مارچ کے دوران کچھ مظاہرین کی طرف سے لگائے گئے نعروں پر لندن پولیس کو سختی نہ برتنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مارچ میں تقریباً ایک لاکھ افراد شامل تھے جبکہ کچھ گرفتاریاں کے علاوہ یہ مظاہرہ مجموعی طور پر پُرامن تھا۔
لندن پولیس نے سنیچر کو ہونے والے مارچ کے حوالے سے انتباہ کیا تھا کہ نفرت پر مبنی جرائم کی کوئی جگہ نہیں اور پورے شہر میں دو ہزار اہلکار خدمات سرانجام دیں گے۔ اسرائیلی سفارت خانے کے گرد احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے خصوصی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
قبل ازیں سیکریٹری خارجہ جیمز کلیورلی نے فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے والوں پر زور دیا کہ وہ غلط اور توڑ مروڑ کر پیش ہونے والی معلومات سے ہوشیار رہیں۔