Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ایکس پر ہونے والے سیاسی سروے عوامی رائے کی عکاسی کرتے ہیں؟

’ایکس‘ صارفین سرویز میں سیاسی لیڈروں سے متعلق عوامی رائے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
انتخابات سے قبل عوامی سروے کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب لوگوں کے رجحان کو جانچنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف ادارے، میڈیا ہاؤسز اور خود سیاسی جماعتیں سروے کر کے اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہیں کہ اس وقت عوام کیا سوچ رہے ہیں۔ 
پاکستان میں بھی یہ پریکٹس کافی عرصے سے رائج ہے۔ 2013 کے عام انتخابات سے قبل سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف ایک مقبول ترین جماعت سمجھی جا رہی تھی۔
تاہم دیگر اداروں کی جانب سے کیے گئے سروے مسلم لیگ ن کی کامیابی کی نوید سنا رہے تھے۔ ایسے میں جب تحریک انصاف صرف 33 نشستوں تک محدود ہوئی تو عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگایا۔
جواب میں مسلم لیگ ن کی جانب سے یہی کہا جاتا تھا کہ انتخابات سے قبل ہونے والے تمام سروے مسلم لیگ ن کی کامیابی کا اشارہ دیتے تھے اس لیے تحریک انصاف کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ 
جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے تو سروے کے انداز اور طور طریقے بھی بدل رہے ہیں۔ اداروں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا ہاؤسز کے سروے کے طریقہ کار سے ہٹ کر اب ایکس (ٹوئٹر) پول ایک نیا سروے سمجھا جاتا ہے۔ 
گذشتہ چند روز سے نہ صرف یہ کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے اداروں کے ہینڈلز پر سروے کیے جا رہے ہیں بلکہ ایکس کے صارفین میں سے ہر دوسرا شخص اگلے انتخابات کے حوالے سے عوامی رائے جاننا چاہ رہا ہے۔
’آپ ووٹ کس کو دیں گے؟  2024 میں آپ کس کو وزیراعظم پاکستان دیکھ رہے ہیں؟ اگر آپ کے حلقے میں آج انتخابات ہوں تو آپ کسے ووٹ دینا پسند کریں گے؟ جیسے سوالات کرتے ہوئے لوگ پول کر رہے ہیں۔‘
حیران کن طور پر ان سروے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف یا عمران خان کی مقبولیت 80 فیصد اور بعض سروے میں 90 فیصد سے بھی اُوپر نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 80 سے 90 فیصد ووٹرز عمران خان کو ووٹ دینا پسند کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا ماہرین کے مطابق یہ سرویز 100 فیصد عوامی نمائندگی کی عکاسی نہیں کرتے (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

صرف یہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ہونے والے سروے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی مسلم لیگ ن پر بہت زیادہ برتری دکھائی دی تو پارٹی کو اپنا سروے ڈیلیٹ کرنا پڑا۔ کچھ میڈیا ہاؤسز کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ 
ایسے میں دو سوالات کھل کر سامنے آتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا پر ہونے والے یہ سروے 100 فیصد آرگینک ہوتے ہیں؟
یعنی ان سروے پر ووٹ ڈالنے والے افراد آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں یا سیاسی جماعتیں ان سرویز کے ذریعے عوامی رائے حقائق سے مختلف دکھانے کے لیے کچھ طور طریقے بھی استعمال کرتی ہیں؟ 
اردو نیوز نے جب یہی سوال سوشل میڈیا ماہرین کے سامنے رکھا تو ان کا جواب مثبت تھا۔ 
سوشل میڈیا ماہر طلحہ رضوان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی جماعتیں ایسے سرویز کو اپنے حق میں دکھانے کے لیے جو سب سے اہم طریقہ استعمال کرتی ہیں وہ سوشل میڈیا سیلز کا استعمال ہے۔‘

سروے میں پی ٹی آئی کی بہت زیادہ برتری نظر آئی تو مسلم لیگ ن نے اسے ڈیلیٹ کردیا (فائل فوٹو: پی ایم ایل ن ڈیجیٹل)

’تمام جماعتوں نے اپنے اپنے سیلز میں ہزاروں کی تعداد میں واٹس ایپ گروپس میں لوگوں کو شامل کر رکھا ہے، جوں ہی کوئی بھی ایسا سروے سامنے آتا ہے تو سوشل میڈیا سیلز کے ذریعے اس سروے کے لنک کو واٹس ایپ گروپس میں پھیلا دیا جاتا ہے۔‘
طلحہ رضوان کے مطابق ’پھر ان واٹس واٹس ایپ گروپس میں شامل ارکان اپنے تین تین چار چار اکاؤنٹس پر ووٹ کرتے ہیں جس سے اس پول کا نتیجہ متعلقہ سیاسی جماعت کے حق میں ظاہر ہوتا ہے۔‘
اس حوالے سے سوشل میڈیا ایکسپرٹ یاسر امین نے بتایا کہ ’جہاں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تعداد میں لوگ موجود ہوں تو ظاہر ہے وہ ایسے سروے کو اپنے حق میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘
’دوسرا طریقہ سنڈیکیٹ گروپس کے ذریعے اس سروے کو اپنے لوگوں تک پھیلانا اور ان کے ذریعے ووٹنگ میں حصہ ڈلوا کر بھی نتائج پر اثرانداز ہوا جاتا ہے۔‘
یاسر امین کہتے ہیں کہ ’اس وقت جو طریقہ سب سے زیادہ رائج ہے وہ بوٹس کا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور افراد پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ بوٹس کے ذریعے سوشل میڈیا پر اپنی برتری ظاہر کر رہے ہیں۔‘

بعض ماہرین کے مطابق ’سوشل میڈیا مقبولیت قائم کرنے کے لیے باٹ اکاؤنٹس اور مختلف ویب سائٹس کا سہارا لیا جاتا ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’یہ بوٹس مختلف مصنوعی طریقوں سے ان پولز میں متعدد مرتبہ ووٹنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے حقیقی عوامی رائے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ کے بانی رکن اور اب استحکام پاکستان پارٹی سے وابستہ فرحان ورک کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا مقبولیت قائم کرنے کے لیے مختلف باٹ اکاؤنٹس اور گوگل میں موجود مختلف ویب سائٹس کا سہارا لیا جاتا ہے جو ڈالرز لے کر ایسی سہولیات فراہم کرتی ہیں جن سے عوامی رائے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘
’اگر کوئی بھی عام شخص گوگل پر سرچ کرے تو آپ کو آرام سے ایسی ویب سائٹس تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔ نا صرف یہ ویب سائٹس ایکس (ٹوئٹر) بلکہ فیس بُک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی سروس بھی فراہم کرتی ہیں جن سے عوامی رائے مختلف ہونے کا تاثر ملتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت سوشل میڈیا پر ایسی ویب سائٹس عام ہیں اور اکثر لوگ اپنی موجودگی کو مصنوعی طریقوں سے بُوسٹ کرتے ہیں۔‘
’ہم نے ابتدا میں ٹک ٹاک پر چیئرمین تحریک انصاف کی آمد پر چند ویڈیوز پر سوالیہ نشان اٹھایا جو کہ 190 ملین سے زیادہ ویوز کراس کرچکی تھیں۔‘

احمد بلال محبوب کے مطابق ’برادری ازم، دھڑے بندی اور مقامی سیاست کے اپنے لوازمات ہوتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’درحقیقت ٹک ٹاک پر آفیشل پاکستانی اکاؤنٹس کی تعداد صرف 40 ملین ہے اور یہ ٹک ٹاک کے اپنے اعدادوشمار ہیں۔ میں نے اس تاثر کو توڑنے کے لیے اپنے صرف 200 فالوورز والے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کی ایک ویڈیو کے 21 ملین ویوز کرکے دکھائے۔‘
اس حوالے سے دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایکس (ٹوئٹر) پر ہونے والے حالیہ سروے حقیقی عوامی رائے کی عکاسی کرتے ہیں؟ 
اس حوالے سے پارلیمانی جمہوریت کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ایکس (ٹوئٹر) صارفین کی تعداد 50 لاکھ سے بھی کم ہے جبکہ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ سے زائد ہے۔‘
’اس لیے ایکس (ٹوئٹر) پر ہونے والے سروے عوام کی حقیقی رائے کا اظہار تو نہیں ہو سکتے، تاہم یہ سروے عوامی رائے ہموار کرنے میں مددگار ضرور ہو سکتے ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما کی مقبولیت 80 سے 90 فیصد تک چلی جائے جبکہ پاکستان میں دیگر جماعتیں بھی اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہوں۔‘

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ ’یہ سرویز عوامی رائے ہموار کرنے میں ضرور مددگار ثابت ہو سکتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس بات کا اندازہ اپ اس بات سے لگا لیں کہ چند ماہ قبل جب سابق وزیراعظم عمران خان سات حلقوں سے الیکشن لڑنے کے لیے کھڑے ہوئے جہاں سے اگرچہ انہیں کامیابی ملی لیکن بعض حلقوں میں انہیں سخت مقابلے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اُس وقت اگر ان کی جگہ کوئی اور پارٹی امیدوار ہوتا تو اسے شکست بھی ہو سکتی تھی۔‘
احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے اور فی الحال پاکستان تحریک انصاف کے پاس بڑا ووٹ میں بھی موجود ہے۔‘
’اس کے باوجود برادری ازم، دھڑے بندی اور مقامی سیاست کے اپنے لوازمات ہوتے ہیں جہاں کبھی بھی کوئی ایک سیاسی جماعت یا رہنما اتنی بڑی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔‘
ان کے مطابق ’تحریک انصاف کو ایکس (ٹوئٹر) پر ہونے والے ان سروے پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ مقامی سیاست میں متحرک ہوتے ہوئے تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کر کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے۔‘

شیئر: