Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اسٹیبلشمنٹ کی حمایت‘ یا کمزور بیانیہ، پرویز خٹک کی پارٹی غیرمقبول کیوں؟

پرویز خٹک کا بنوں میں جلسہ سب سے کمزور پاور شو ثابت ہوا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی پی)
سابق وزیر دفاع اور پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمنٹیرین (پی ٹی آئی پی) کے سربراہ پرویز خٹک کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ عوام ان کو متبادل قیادت کے طور پر قبول نہیں کر رہے۔ ان کی جماعت نے نوشہرہ میں اگرچہ بڑا جلسہ کیا مگر دیگر اضلاع میں ان کی جماعت لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پرویز خٹک کا شمار سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا رہا ہے مگر 17 جولائی کو انہوں نے پاکستان تحریک انصاف سے راہیں جدا کرکے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے نام سے اپنی نئی سیاسی جماعت بنائی جس میں سابق وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان سمیت سابق صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی بھی شامل ہوئے۔
پرویر خٹک نے پارٹی کے قیام کے بعد عوامی رابطوں کے لیے ہر ضلع میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عوام کو ان کی قیادت پر بھروسہ ہے اور وہ اس نئے نظریے کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔

پارٹی قیام سے اب تک کتنے جلسے منعقد کیے جا چکے ہیں؟

پی ٹی آئی پی کے قیام کے بعد اب تک نو بڑے جلسے منعقد کیے جا چکے ہیں جن میں پرویز خٹک کا اپنے آبائی حلقے نوشہرہ میں 19 اگست کو کیا گیا پہلا جلسہ بھی شامل ہے جس کے بعد انہوں نے عوامی رابطوں کا آغاز کیا۔
نوشہرہ میں ہونے والا جلسہ بلاشبہ ایک کامیاب پاور شور رہا جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سیاسی مبصرین نے بھی نوشہرہ جلسے کو مثبت آغاز قرار دیا۔
پرویز خٹک کے کامیاب جلسے کی ایک بڑی وجہ آبائی ضلع میں کیے جانے والے ترقیاتی کام بھی تھے۔ نوشہرہ جلسے کے بعد 28 اگست کو کاغان میں جلسہ منعقد کیا گیا مگر یہ زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکا۔
پی ٹی آئی پی کی جانب سے آٹھ ستمبر کو مانسہرہ، 14 ستمبر کو ڈی آئی خان، 22 ستمبر کو سوات اور 30 ستمبر کو کوہاٹ میں جلسے منعقد کیے گئے اور ان جلسوں میں متعدد رہنما ان کے ساتھ آ ملے مگر عوام کی جانب سے کوئی بہت زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔

سابق وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان بھی پرویز خٹک کی جماعت میں شامل ہیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی پی)

پشاور جلسہ کتنا کامیاب رہا؟

پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمنٹیرین نے پشاور کے علاقے ہزارخوانی میں 20 اکتوبر کو عوامی جلسہ منعقد کیا جس میں اس کی تمام قیادت سمیت پشاور کے سابق اراکینِ صوبائی اسمبلی اور سابق وزرا بھی شامل تھے مگر اس کے باوجود یہ ایک متاثر کُن جلسہ نہیں تھا۔
سینئیر صحافی محمد فہیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نوشہرہ کے بعد تمام جلسے پرویز خٹک کے لیے مایوس کن رہے۔ پشاور کے جلسے سے پارٹی کو امید تھی مگر یہ پاور شو توقعات پر پورا نہ اتر سکا۔‘

کیا بنوں میں خالی کرسیوں سے خطاب کیا گیا؟

پرویز خٹک کی جماعت نے 22 اکتوبر کو بنوں میں جلسہ کیا۔ جمخانہ سٹیڈیم میں منعقدہ جلسہ سب سے کمزور پاور شو ثابت ہوا۔ مرکزی قیادت سمیت مقامی رہنماؤں سے سٹیج بھرا ہوا تھا مگر پنڈال میں کرسیاں خالی پڑی تھیں۔
مقامی صحافی کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں پرویز خٹک سے خالی کرسیوں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے ’نو کمنٹس‘ کہنے پر اکتفا کیا، تاہم مقامی صحافی ظفر اقبال مروت نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی پی کے جلسے کو ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس جلسے میں مروت اتحاد یعنی سیف اللہ برادران کے حامی بھی شریک ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’جلسے کے دوران بعض کارکن چائے پینے کے لیے چلے گئے تھے جس کی وجہ سے کرسیاں خالی نظر آئیں۔
ظفر اقبال مروت کے مطابق نئی جماعت کے لیے بنوں جیسے ضلع میں اتنے لوگوں کو اکٹھا کرنا یقیناً قابل تعریف ہے۔

صحافی محمد فہیم کے مطابق پرویز خٹک پرانی کارکردگی کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہے ہیں جو وہ عمران خان کے کھاتے میں ڈال چکے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

کیا پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمنٹیرین پاور شو دکھانے میں ناکام رہی؟

سینیئر صحافی محمد فہیم کے مطابق پرویز خٹک کے پاس اپنا کوئی نعرہ نہیں ہے۔ وہ پرانی کارکردگی کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہے ہیں جو وہ عمران خان کے کھاتے میں ڈال چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اب ان کا یہ بات کرنا کہ یہ سب ان کا اپنا کمال تھا تو اسے کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے۔
محمد فہیم کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی اس بیانیے کو مقبول بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ پرویز خٹک اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ ہیں۔ پرویز خٹک کے لیے اس تاثر نے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں جسے زائل کرنے کے لیے انہوں نے خود بھی کوئی کوشش نہیں کی، جس کی وجہ سے عوام میں ان کو قبولیت حاصل نہیں ہو سکی اور یہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار طارق وحید کے تاثرات بھی کچھ مختلف نہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پرویز خٹک بلاشبہ ایک زِیرک سیاستدان ہیں۔ انہوں نے نہ صرف خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر سنہ 2018 کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو اکثریت دلوائی۔
انہوں نے کہا کہ ’سیاسی دائو پیچ سے واقفیت اور سیاسی انجینیئرنگ کی مہارت اپنی جگہ مگر پرویز خٹک موجودہ وقت میں ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی جماعت تو بنا لی ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ہر حلقے سے الیکٹیبلز ان کے ساتھ شامل ہونے کو تیار ہیں مگر زمینی حقائق ان دعووں کے برعکس ہیں۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمنٹیرین نے پشاور کے علاقے ہزارخوانی میں 20 اکتوبر کو عوامی جلسہ منعقد کیا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی پی)

طارق وحید کا کہنا تھا کہ ’نوشہرہ کے علاوہ کسی بھی ضلع میں ان کے جلسوں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ بظاہر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے جو توقعات ان سے وابستہ کی گئی تھیں، وہ شاید آئندہ الیکشن میں ان پر پورا نہ اتر سکیں۔

’تمام جلسے کامیاب تھے‘

پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے ترجمان ضیا اللہ بنگش نے کہا کہ ’ہم نے اب تک 10 جلسے کیے اور سب کے سب کامیاب رہے۔ پشاور میں پہلا ورکرز کنونشن تھا جس میں پنڈال کارکنوں سے بھر گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’بنوں میں جلسے کا وقت تین بجے کا تھا اور پرویز خٹک وقت سے پہلے سٹیج پر پہنچ گئے تھے۔ اس دوران ایک صحافی آیا اور خالی کرسیوں کی ویڈیو بنانے لگا۔
ضیا اللہ بنگش کے مطابق پرویز خٹک کے خطاب کے دوران کرسیاں کارکنوں سے بھری ہوئی تھیں جس کی تصاویر موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کی جماعت کامیاب جلسوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم اب 28 اکتوبر کو ایبٹ آباد، 30 اکتوبر کو اَپر چترال اور 31 اکتوبر کو لوئر چترال میں جلسہ کرنے جا رہے ہیں۔
ضیا اللہ بنگش کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی پی ایک حقیقت ہے جسے پروپیگنڈہ کر کے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔‘

شیئر: