Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کا مشن بلوچستان دوسری جماعتوں کے لیے کتنا خطرناک ہے؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف منگل کو سابق وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز کے ہمراہ دو روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچے ہیں جہاں پر وہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
منگل کو کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کے بعد بی اے پی، پی ٹی آئی، نیشنل پارٹی، بی این پی اور پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد شخصیات نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا- 
 شمولیت کرنے والوں میں بڑی تعداد بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور سابق پارلیمنٹرینز کی شامل ہیں- 
 نواز شریف کوئٹہ میں قیام کے دوران ایک ورکرز کنونشن سے بھی خطاب کریں گے جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی انتخابی مہم کو آگے بڑھائیں گے بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے راہ بھی ہموار کریں گے۔
ان میں بی اے پی کے سابق سربراہ سابق وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال خان، نگراں وزیراعلٰی بلوچستان کے بھائی سابق وفاقی وزیر میردوستین ڈومکی، سابق صوبائی وزرا میر عاصم کرد گیلو میر عبدالغفور لہڑی، محمد خان لہڑی، میر شعیب نوشیروانی، سردار عبدالرحمان کھیتران، سردار مسعود لونی، محمد خان طور اتمانخیل، نور محمد دمڑ، سابق ایم پی اے ربابہ بلیدی قابل ذکر ہیں- 
چند ماہ قبل پیپلز پارٹی میں شمولیت کرنے والے سابق وفاقی وزیر سردار فتح محمد محمد حسنی، سابق صوبائی وزیر سلیم احمد کھوسہ اور فائق جمالی بھی ن لیگ میں شامل ہوگئے- سابق سینیڑر سعید الحسن مندوخیل نے بھی شمولیت کی-
تحریک انصاف سے سابق ایم این اے محمد خان جمالی، عاطف سنجرانی، نیشنل پارٹی سے سابق سینیٹر اشوک کمار، سابق صوبائی وزیر مجیب الرحمان محمد ژسنی بھی ن لیگ میں شامل ہوگئے- 
سابق ایم پی اے طارق بگٹی، بسنت لعل گلشن، بی این پی کی سابق ایم پی اے زینت شاہوانی بھی شمولیت کرنے والوں میں شامل ہیں۔
ان سے ملنے والے رہنماؤں میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے صدر خالد مگسی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، جان جمالی، سردار صالح بھوتانی، منظور کاکڑ، نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ، جان بلیدی، کبیر محمد اور پشتونخوامیپ کے نواب ایاز جوگیزئی، ڈاکٹر حامد اچکزئی اور لیاقت آغا شامل تھے۔
ان ملاقاتوں کے دوران نواز شریف نے اپنی گفتگو میں کہا کہ وہ پہلے بھی سب کو ساتھ لے کر چلے ہیں اور اب بھی اس روایت کو نبھائیں گے۔

نواز شریف کے دورہ بلوچستان کو دوسری جماعتیں خصوصی دلچسپی سے دیکھ رہی ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

نواز شریف کے دورہ بلوچستان کو دوسری جماعتیں خصوصی دلچسپی سے دیکھ رہی ہیں۔
بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی نے اس پر کھل کر بات کی ہے اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے یہاں تک کہا ہے کہ نواز شریف کو لاہور میں مشکل پیش آ رہی ہے اس لیے وہ بلوچستان گئے ہیں تاکہ وہاں باپ جیسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اپنے لیے مناسب نشستوں کا انتظام کر سکیں۔
بلاول بھٹو کی یہ بات زیادہ بے جا نہیں محسوس ہوتی کیونکہ نواز شریف کے کوئٹہ پہنچنے کے بعد کم و بیش وہاں کی تمام سیاسی جماعتیں ان سے رابطہ کر رہی ہیں اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان کے الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد اگلے انتخابات مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے لڑیں گے۔
سینیئر سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا مشن بلوچستان ان کی اس کوشش کا حصہ ہے جو وہ اپنی جماعت کو ملک گیر بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔
’نواز شریف پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی اپنی جماعت کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، اسی لیے وہ دوسرے صوبوں میں اتحاد بنا رہے ہیں، جیسے کہ سندھ میں بھی وہ اتحاد بنا رہے ہیں۔ بلوچستان کا دورہ بھی اسی مہم کا حصہ ہے اور وہ وہاں بھی اسی نوعیت کے اتحاد بنائیں گے۔
سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ نواز شریف مرکز اور پنجاب کے ساتھ دوسرے صوبوں بالخصوص بلوچستان میں بھی حکومت بنانے کے خواہشمند ہیں۔ ’اور ان کی کوشش ہے کہ وہاں ان کی جماعت اتنی مضبوط ہو جائے کہ اگر حکومت نہ بھی بنا سکے تو کم از کم اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنے۔‘
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے الیکٹیبلز سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بناتے آئے ہیں۔ ’وہ پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی  اتحاد کرتے رہے ہیں اور اب نون لیگ سے بھی اتحاد ہی کر رہے ہیں۔‘
بلوچستان کے سینیئر صحافی شہزادہ زوالفقار کے مطابق نواز شریف کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچستان کے تمام سیاسی دھڑے ان کی حمایت کریں۔
’ان کی خواہش ہے کہ اختر مینگل، ڈاکٹر مالک اور محمود خان اچکزئی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اس بات کا امکان ہے کہ بدھ کے روز محمود اچکزئی نواز شریف سے ملاقات کریں۔‘
شہزادہ ذوالفقار کا ماننا ہے کہ نواز شریف کی انٹری سے بلوچستان میں سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کو ہوا ہے کیونکہ آج جتنے الیکٹیبلز نون لیگ میں شامل ہو رہے ہیں پہلے یہی لوگ پیپلزپارٹی میں جا رہے تھے۔
اسی لیے بلاول بھٹو کافی غصے میں ہیں۔ لیکن بظاہر پیپلز پارٹی ابھی بھی کوشش کر رہی ہے کہ کچھ بچے کھچے بلوچ سیاستدان ان کے ساتھ اتحاد بنائیں۔‘
اسی لیے پیپلز پارٹی نے پہلی مرتبہ بلوچستان میں 30 نومبر کو یوم تاسیس کی تقریب رکھی ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان آئیں گے ضرور اور جتنے بھی لوگ اپنے ساتھ ملا سکے ملانے کی کوشش کریں گے۔‘

شیئر: