Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جان ایف کینیڈی، امریکی صدر جن کے قتل کا معمہ 60 برس بعد بھی حل نہ ہو سکا

امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو دو گولیاں لگیں جنہیں فوری طور پر پورکلینڈ میموریئل ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ اسی شام چل بسے (فوٹو: روئٹرز)
یہ سنہ 1963 کے موسمِ خزاں کی ایک اُداس دوپہر ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے سب سے بڑے شہر ڈیلس میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کمپین کرنے کے لیے گاڑیوں کے قافلے میں جا رہے ہیں۔
ٹیکساس کے گورنر جان کونلی اور ان کی اہلیہ نیلی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ یہ قافلہ جب دوپہر ایک بجے کے قریب ڈیلی پلازہ کے قریب پہنچا تو اچانک گولیوں کی تھرتھراہٹ کی آواز سنائی دی۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو دو گولیاں لگیں جنہیں فوری طور پر پورکلینڈ میموریئل ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ اسی شام چل بسے۔
امریکی تاریخ کے اس افسوس ناک دن ٹیکساس کے سابق گورنر جان کونلی بھی زخمی ہوئے۔ یہ حملہ آج سے پورے ساٹھ برس قبل 22 نومبر کو امریکہ کے 35ویں صدر جان ایف کینیڈی پر کیا گیا تھا۔ ان کا قاتل لی ہاروے اوسوالڈ قریب ہی ایک ویئرہاؤس سے گرفتار ہو گیا۔ وہ ایک سابق میرین اہلکار تھا جسے دو روز بعد جب دوسری جیل میں منتقل کیا جا رہا تھا تو ڈیلس کے ہی ایک نائٹ کلب کے مالک جیک روبی نے قتل کر دیا۔ جیک چند برس بعد جیل میں ہی کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔
یہ امریکی تاریخ میں پرل ہاربر اور 9/11 کی طرح اہمیت کا حامل دن ہے کیوںکہ امریکی عوام میں پرورش پانے اس سازشی نظریے کا کبھی جواب نہیں مل سکا کہ کیا جان ایف کینیڈی کے قتل میں واقعتاً امریکی خفیہ ایجنسی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) ملوث تھی؟
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ 
پہلی مماثلت تو یہی ہے کہ دونوں ہی رہنما عوام میں مقبول تھے جب کہ اس سوال کا جواب بھی کبھی نہیں مل سکا کہ ان دونوں رہنماؤں کا قتل کیوں کر ہوا اور یہ گتھی آج بھی نہیں سلجھی ہے جس کے باعث دونوں رہنماؤں کے قتل کے حوالے سے مختلف سازشی نظریات عوام میں مقبول عام ہیں۔
دونوں ہی رہنما امریکا اور سوویت یونین میں جاری سرد جنگ کے عہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان نے اگر پاک امریکا تعلقات کی بنیاد رکھی تھی تو جان ایف کینیڈی کے عہدِ صدارت میں دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات غیرمعمولی طور پر بہتر ہوئے اور پاکستان امریکا کے ایک اہم شراکت دار کے طور پر ابھرا۔ اس دور میں سوویت یونین اور چین کے سرخ انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے دونوں ملکوں نے نہ صرف معاہدے پر دستخط کیے بلکہ سی آئی اے کے خفیہ طیارے ایف 12 چین کی جاسوسی کیا کرتے تھے۔ اس وقت مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے سی آئی اے نے تبت میں آزادی کے لیے لڑنے والے باغیوں کی خفیہ طور پر مدد بھی کی۔
امریکا کا بروکنگز انسٹی ٹیوٹ اس بارے میں لکھتا ہے کہ’11 جولائی 1961 کو ماؤنٹ ورنون کے دامن میں امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے گھر پر (پاکستان اور امریکا کے صدور کے درمیان) یہ یادگار ملاقات ہوئی۔‘ 
’اس وقت امریکی خاتونِ اول جیکوئلن (جیکی) بوویئر کینیڈی نے اپنے شوہر اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کی ملاقات کے لیے مائونٹ ورنون کا انتخاب کیا تھا۔‘

امریکی خاتون اول جیکی کینیڈی نے پاکستان اور انڈٖیا کا دورہ کیا (فوٹو: اے ایف پی)

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ اپنے اس مضمون میں مزید لکھتا ہے کہ ’انھوں نے خاموشی کے ساتھ ماؤنٹ ورنون کی جاگیر کے منتظمین سے رابطہ کیا جنھوں نے پاکستانی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا۔ انھوں نے رات کے کھانے کے لیے پھولوں اور سجاوٹ کے لیے جیولری سٹور ’ٹفنیز‘ کی خدمات حاصل کیں۔‘
اس مضمون کے مطابق ’اس ملاقات میں ہی جان ایف کینیڈی نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے تبت کے باغیوں کی مدد کرنے کے لیے فضائی اڈا کھولنے کا کہا۔ جنرل ایوب خان اس پر آمادہ ہو گئے مگر انہوں نے امریکی ہم منصب سے یہ وعدہ لیا کہ انڈیا کو کوئی بھی حربی ساز و سامان پاکستان سے پیشگی مشورہ کیے بغیر فروخت نہیں کیا جائے گا۔‘
اس ملاقات کے چند ماہ بعد ہی امریکی خاتون اول جیکی کینیڈی نے پاکستان اور انڈٖیا کا دورہ کیا جس نے دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ کسی بھی امریکی خاتونِ اول کا پہلا دورۂ پاکستان تھا اور  وہ اس دورے کے دوران لاہور میں مغلیہ عہد کی تاریخی عمارات کے علاوہ درۂ خیبر بھی گئیں۔
یہ جان ایف کینیڈی ہی تھے جنھوں نے اس وقت دنیا میں سلگتے دو اہم محاذوں میں امریکا کے مفادات کو خاص اہمیت دی۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ اس بارے میں لکھتا ہے کہ ’اکتوبر 1962 میں جب کیوبا کا میزائل بحران اپنے عروج پر تھا تو انہی دنوں چین نے انڈیا پر حملہ کر دیا، اس وقت امریکا کے لیے ان دونوں اور تشویشناک بحرانوں سے پیش آنا آسان نہ تھا۔ انڈیا نے امریکی اسلحے کے لیے مدد مانگی تو صدر جان ایف کینیڈی نے جنرل ایوب خان کے ساتھ کیا گیا اپنا وعدہ توڑتے ہوئے انڈیا کو بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کیا۔‘

جان ایف کینیڈی کا قاتل لی ہاروے اوسوالڈ قریب ہی ایک ویئرہاؤس سے گرفتار ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی بحرانوں سے نپٹنے کی اس صلاحیت کے باعث ہی وہ امریکی عوام میں آج بھی مقبول ہیں جو چھ دہائیوں گزرنے کے بعد بھی اپنے ہردلعزیز رہنما کے قتل کی وجوہات معلوم کرنا چاہتے ہیں جن کا جواب نہ ملنے کے باعث وہ اس حوالے سے مقبولِ عام سازشی نظریات میں پناہ لیتے ہیں جن میں ایک مقبولِ عام سازشی نظریے میں سی آئی اے کا نام لیا جاتا ہے جب کہ ایک اور سازشی نظریے میں کیوبا کے حکام کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
وہ لوگ جو سی آئی اے کے امریکی رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کی سازش کی جانب اشارہ کرتے ہیں، ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ صدر کینیڈی نے سی آئی اے کے سربراہ ایلن ڈلس کو ان کے عہدے سے برطرف کیا تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدر کینیڈی نے کیوبا کے باغیوں کی مدد کے لیے فضائی اڈے فراہم نہیں کیے تھے اور وہ مبینہ طور پر سی آئی اے کا بجٹ کم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
یہ یقین بھی پایا جاتا ہے کہ وہ کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ متحرک نہیں تھے۔
تاہم سنہ 1979 میں جان ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتلوں کی تفتیش کرنے کے لیے قائم کی گئی ہاؤس سلیکٹ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ قرار دیا کہ جان ایف کینیڈی کے قتل میں سی آئی اے ملوث نہیں تھی، تاہم ایک سے زیادہ قاتلوں کے موجود ہونے کے امکان کو سرے سے رَد نہیں کیا گیا تھا۔
جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر اگلے برس ہونے والے امریکا کے صدارتی انتخابات میں جوبائیڈن کے اہم حریف ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ سی آئی اے کے جان ایف کینیڈی اور اپنے والد رابرٹ ایف کینیڈی سینیئر کے قتل میں ملوث ہونے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔  
ان کے والد رابرٹ ایف کینیڈی کو بھی اپنے بھائی کی طرح ہی قتل کیا گیا تھا جو جان ایف کینیڈی کے دورِ صدارت میں اٹارنی جنرل تھے اور وہ 1968 کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار ہو سکتے تھے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ وہ اگر 2024 میں دوبارہ منتخب ہوئے تو تمام خفیہ دستاویزات جاری کر دیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد ان کے نائب لنڈن بی جانسن امریکی صدر منتخب ہوئے جنھوں نے جان ایف کینیڈی کے قتل کے حقائق جاننے کے لیے وارن کمیشن قائم کیا جس نے اپنی رپورٹ میں یہ تصدیق کی تھی کہ اس سانحے میں سی آئی اے ملوث نہیں تھی۔
 بعدازاں راک فیلر فاؤنڈیشن نے بھی ایک تحقیق کی جس نے سی آئی اے کے صدر جان ایف کینیڈی کے قتل میں ملوث ہونے کے دعوے کو درست تسلیم نہیں کیا تھا۔
یہ دعویٰ بہرحال تحقیق طلب ہے کہ آیا جان ایف کینیڈی کے قتل کی منصوبہ بندی ایک فرد کی جانب سے انجام دیا جانے والا انفرادی عمل تھا یا اس کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
کیوبا کے سابق صدر فیڈل کاسترو کے اس قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں اس لیے صداقت ہو سکتی ہے کہ امریکا بھی فیڈل کاسترو کو قتل کرنے کی سازش میں شامل رہا تھا اور لی ہاروے اوسوالڈ نے سوویت یونین کی شہریت حاصل کرنے کے لیے درخواست دے رکھی تھی۔
رواں سال جان ایف کینیڈی کے قتل کے حوالے سے بارہا ذکر ہوتا رہا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی جانب سے ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق امریکی صدر کے قتل میں سی آئی اے ملوث تھی۔
رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کے اس بیان پر امریکا میں نئی بحث چھڑ گئی  اور تب ہی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ وہ اگر 2024 میں دوبارہ منتخب ہوئے تو سابق صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق تمام خفیہ دستاویزات جاری کر دیں گے۔
 خیال رہے کہ سنہ 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک میمو لکھا تھا کہ جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق ریکارڈ کو جاری ہونے سے روکا جا رہا ہے کیوںکہ قومی سلامتی اور خارجہ امور کی وزارتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ معلومات کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق امریکی صدر کے قتل میں سی آئی اے ملوث تھی (فوٹو: اے ایف پی)

 یہ سوال بھی تحقیق طلب ہے کہ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی موت سے قبل کیا الفاظ ادا کیے تھے۔
ریڈرز ڈائجسٹ اس بارے میں لکھتا ہے کہ ‘گاڑی میں سوار ٹیکساس کے گورنر کی بیوی نے پوچھا تھا، ’آپ یقیناً یہ نہیں کہہ سکتے کہ ڈیلس کے لوگوں نے آپ کا بہتر انداز میں استقبال نہیں کیا جس کے جواب میں جان ایف کینیڈی نے  کہا تھا۔ ’یقیناً ایسا نہیں کہا جا سکتا۔‘
انہوں نے یہ گفتگو گولی لگنے سے چند لمحات قبل کی تھی اور دس منٹ بعد ان کو جب ہسپتال لے جایا گیا تو ان کی سانسیں چل رہی تھیں اور جیکی ان کے ساتھ تھیں جن کا گلابی جوڑا خون میں لت پت ہو چکا تھا۔
22 نومبر کے دن صرف جان ایف کینیڈی کا قتل ہی نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے امریکی عوام کے اجتماعی شعور کو بھی جھنجھوڑ ڈالا تھا کیوںکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے ہردلعزیز رہنما کو ان سے یوں دور کیا جا سکتا تھا مگر اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں کہ اس قتل کے سربستہ راز سے شاید ہی کبھی پردہ اُٹھ سکے۔

شیئر: