Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل اور حماس چار روزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر متفق

حکومت نے کہا ہے کہ سب سے پہلے خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا (فوٹو:اے پی)
اسرائیل کی حکومت اور حماس نے جنگ میں چار دن کے وقفے پر اتفاق کیا ہے تاکہ اسرائیل میں قید 150 فلسطینیوں کے بدلے غزہ میں 50 یرغمالیوں کی رہائی اور محصور علاقے میں انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق  اسرائیل کی کابینہ نے حماس کے عسکریت پسند گروپ کے ساتھ جنگ ​​بندی کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت چھ ہفتوں سے جاری تباہ کن جنگ کو عارضی طور پر روک دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
اسرائیلی حکومت نے بدھ کو کہا کہ معاہدے کے تحت حماس کو غزہ کی پٹی میں چار دن کے عرصے میں تقریباً 240 یرغمالیوں میں سے 50 کو رہا کرنا ہو گا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئندہ ہر 10 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر لڑائی میں ایک روز کا وقفہ دیا جائے گا۔
بدھ کی صبح کابینہ کی ووٹنگ سے قبل وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ’اسرائیل جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد حماس کے خلاف دوبارہ کارروائی شروع کرے گا۔‘
حکومت نے کہا ہے کہ سب سے پہلے خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا۔
اسرائیل اور حماس بدھ کے روز ایک معاہدہ ہونے کے قریب پہنچتے نظر آئے جس کے تحت چھ ہفتوں سے جاری تباہ کن جنگ عارضی طور پر رک جائے گی اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے بدلے غزہ کی پٹی میں قید درجنوں یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے منگل کو دیر گئے ووٹنگ کے لیے اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کیا جو بدھ کی صبح تک جاری رہا۔
ووٹنگ سے قبل بینجمن نیتن یاہو نے حکومتی وزراء کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ یہ وقفہ صرف حکمت عملی ہے اور جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ جارحانہ کارروائی شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اجلاس میں اعلیٰ سکیورٹی حکام نے بھی شرکت کی۔

اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے تمام اہداف حاصل کرنے تک جنگ جاری رکھیں گے‘ (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ ’ہم جنگ میں ہیں اور ہم جنگ جاری رکھیں گے۔ ہم اپنے تمام اہداف حاصل کرنے تک جنگ جاری رکھیں گے۔‘
نیتن یاہو نے تسلیم کیا کہ کابینہ کو سخت فیصلے کا سامنا کرنا پڑا تاہم جنگ بندی کی حمایت کرنا درست ہے۔ کچھ سخت گیر وزراء کی مخالفت کے باوجود نیتن یاہو کو اس اقدام کو منظور کرنے کے لیے مناسب حمایت حاصل تھی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق حماس نے کہا ہے کہ 50 یرغمالیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید 150 فلسطینی خواتین اور بچوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ فلسطینی گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے سے انسانی، طبی اور ایندھن کی امداد کے سینکڑوں ٹرک غزہ میں داخل ہو سکیں گے۔
اسرائیل نے جنگ بندی کی مدت کے دوران غزہ کے تمام حصوں میں کسی پر حملہ یا گرفتاری نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا خیرمقدم:

امریکی صدر جو بائیڈن نے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آج کے معاہدے سے امریکی یرغمالیوں کی گھر واپسی ہونی چاہیے اور میں اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک ان سب کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔‘
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے بتایا کہ امید ہے کہ تین سالہ بچی جس کے والدین حماس کے حملے میں ہلاک ہو گئے تھے، سمیت  تین امریکی شہری رہا کیے جانے والے یرغمالیوں میں شامل ہوں گے۔
قطر کی حکومت کا کہنا ہے کہ غزہ سے یرغمال بنائے گئے 50 شہری خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا جس کے بدلے میں ’اسرائیلی جیلوں میں قید متعدد فلسطینی خواتین اور بچے رہا کیے جائیں گے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کے آغاز کے وقت کا اعلان اگلے 24 گھنٹوں میں کیا جائے گا۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں میں، 11,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

اسرائیل کی حکومت نے کہا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے علاوہ نصف سے زیادہ یرغمالیوں کے پاس امریکہ، تھائی لینڈ، برطانیہ، فرانس، ارجنٹائن، جرمنی، چلی، سپین اور پرتگال سمیت تقریباً 40 ممالک کی غیر ملکی اور دوہری شہریت تھی۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی پہلی رہائی جمعرات کو متوقع ہے۔
حماس نے منگل کے روز پیش گوئی کی تھی کہ قطر اور امریکہ کی ثالثی میں ہونے والا معاہدہ ’آئندہ گھنٹوں‘ میں طے پا سکتا ہے۔
مذاکرات بار بار تعطل کا شکار رہے تاہم اگر کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو اس کا مطلب جنگ کا خاتمہ نہیں ہو گا جو 7 اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں میں، 11,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے دو تہائی خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ 2,700 سے زائد لاپتہ ہیں۔

شیئر: