Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں 51 خواتین ملوث، وجوہات کیا ہیں؟

خیبر پختونخوا پولیس کی رپورٹ کے مطابق رواں برس 563 دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
صوبہ خیبر پختونخوا میں خواتین بھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائی گئیں ہیں۔
محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2014 سے اب تک 51 خواتین دہشت گردی کے مختلف کیسز میں ملوث رہی ہیں۔ ان میں صرف 30 خواتین دہشت گردی کے واقعات میں سہولت کار بنیں۔ اسی طرح اغوا میں 13 اور ٹارگٹ کلنگ میں تین خواتین ملوث رہیں۔
سی ٹی ڈی کی دستاویزات کے مطابق خواتین بھتہ خوری اور ٹیرر فائنانسنگ کیسز میں بھی مطلوب رہیں۔
پشاور میں خواتین دہشت گردوں کی تعداد سب سے زیادہ
محکمہ انسداد دہشت گردی کے اعداد و شمار کے مطابق پشاور میں 18 خواتین دہشت گردی کے مقدمات میں مطلوب پائی گئیں۔ ان میں چھ خواتین پر دہشت گردی، پانچ پر اغوا اور دو پر بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے الزامات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عدالت نو خواتین کو دہشت گردی کے کیسز میں بری کر چکی ہے۔

خواتین کا دہشت گردی کی طرف رحجان کیوں؟

محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈی آئی جی عمران شاہد نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بیشتر واقعات میں خواتین نے دہشت گردوں کی سہولت کاری کا کردار ادا کیا ہے، جیسا کہ بھتہ خوری میں شہری کی معلومات فراہم کرنا یا کسی ٹارگٹ کلنگ میں مخبری کرنا۔ ان تمام کیسز کو غور سے دیکھا جائے تو ان خواتین کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق ضرور نکل آتا ہے۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اکثر دہشت گردوں کے گھر میں موجود خواتین ایسے واقعات میں ملوث نکلتی ہیں۔ 
’گھر میں اگر شوہر یا بھائی دہشت گرد ہوگا تو گھر کے کسی نہ کسی خاتون پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ تاہم کچھ دہشت گردوں کے گھر میں موجود خواتین برین واش بھی ہوئی ہیں۔‘
ڈی آئی جی عمران شاہد کے مطابق پیسوں کے لالچ میں دہشت گردوں کی سہولت کاری کا تناسب بہت کم ہے۔

ڈی آئی جی عمران شاہد کے مطابق ’بیشتر واقعات میں خواتین نے دہشت گردوں کی سہولت کاری کا کردار ادا کیا ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خواتین دہشت گردوں کی گرفتاری میں مشکلات

محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈی آئی جی عمران شاہد نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث خواتین کی معلومات اکٹھی کرنا ایک چیلنج ہوتا ہے، کیونکہ سی ٹی ڈی کے زیادہ تر مخبر مرد ہوتے ہیں، اسی لیے مشکوک خواتین کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین دہشت گرد موبائل فون کا استعمال بھی کم کرتی ہیں جس کے باعث ان تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
عمران شاہد کا مزید کہنا تھا کہ سنہ 2023 میں ایک خاتون دہشت گردی جبکہ دوسری بھتہ خوری میں ملوث پائی گئی۔ ان کے خلاف مقدمات درج ہیں اور مزید تفتیش بھی ہو رہی ہے۔

ماہر نفسیات کیا کہتے ہیں؟

ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی نے اردو نیوز کو بتایا کہ خواتین اکیلی کبھی ایسا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتیں جب تک انہیں مرد کی سرپرستی یا تعاون حاصل نہ ہو۔
انہوں نے کہا اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، سب سے بڑی وجہ خاندان کے کسی فرد کا انتقام ہو سکتا ہے جو برین واش کے باعث ممکن ہے۔ اسی طرح مذہبی جنویت کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے۔

سی ٹی ڈی کی دستاویزات کے مطابق خواتین بھتہ خوری اور ٹیرر فائنانسنگ کیسز میں بھی مطلوب رہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

رواں برس دہشت گردی کے کتنے واقعات رونما ہوئے؟

خیبر پختونخوا پولیس کی رپورٹ کے مطابق رواں برس 563 دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں 243 حملے پولیس پر کیے گئے۔ دہشت گردوں نے سب سے زیادہ حملے ڈی آئی خان میں کیے جن کی تعداد 86 ہے۔ اس کے ساتھ شمالی وزیرستان میں 78 ، ضلع خیبر میں 72، پشاور 51 اور ٹانک میں 51 دہشت گردی کے واقعات پیش آئے۔

شیئر: