Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی نژاد برطانوی سرجن نے غزہ سے واپسی پر جنگی جرائم یونٹ کو کیا گواہی دی؟

غسان ابو سیتا نے غزہ میں متعدد تنازعات میں میڈیکل ٹیموں کے ساتھ رضاکارانہ خدمات انجام دیں (فوٹو: اے ایف پی)
ایک فلسطینی نژاد برطانوی سرجن جس نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کی میڈیکل ٹیم میں وہاں کئی ہفتے گزارے، واپسی پر انہوں نے برطانوی جنگی جرائم کی تحقیقاتی یونٹ کو گواہی دی ہے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق غسان ابو سیتا ایک پلاسٹک سرجن ہیں اور انہوں نے غزہ میں متعدد تنازعات میں میڈیکل ٹیموں کے ساتھ رضاکارانہ خدمات انجام دیں، جس کا آغاز 1980 کی دہائی کے اواخر میں پہلی فلسطینی بغاوت کے دوران ایک طبی طالب علم کے طور پر ہوا۔ انہوں نے عراق، شام اور یمن سمیت دیگر تنازعات والے علاقوں میں بھی کام کیا ہے۔
غسان ابو سیتا جنگ شروع ہونے کے دو دن بعد 9 اکتوبر کو مصر سے غزہ میں داخل ہوئے اور وہاں 43 دن تک رہے، اور خاص طور پر شمالی غزہ کے الاہلی اور شفا ہسپتال میں کام کرتے رہے۔
غسان ابو سیتا نے سنیچر کو بیروت میں انسٹی ٹیوٹ فار فلسطین سٹڈیز کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انہوں نے دوسرے تنازعات اور غزہ کی جنگ کی شدت کا جو تجربہ کیا وہ ’سیلاب اور سونامی کے درمیان فرق‘ جیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی حیرت انگیز تعداد کے علاوہ غزہ میں صحت کے نظام کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور تباہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی طور پر سب سے بری چیز مارفین اور اینالجیسک دوائی کا ختم ہو جانا تھا اور پھر بعد میں بے ہوشی کی ادویات بھی ختم ہو گئیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو بے ہوشی کی دوا کے بغیر تکلیف دہ طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ جب وہ برطانیہ واپس آئے تو میٹرو پولیٹن پولیس میں جنگی جرائم کے یونٹ نے ان سے جنگی جرائم کی ممکنہ تحقیقات میں ثبوت دینے کو کہا اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
پولیس نے اسرائیل یا فلسطینی علاقوں سے واپس آنے والے ان لوگوں کے لیے ایک کال جاری کی تھی جنہوں نے ’دہشت گردی، جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کا مشاہدہ کیا یا ان کا شکار ہوئے۔‘
غسان ابو سیتا نے کہا کہ اس کی زیادہ تر گواہی صحت کی سہولیات پر حملوں سے متعلق ہے۔
وہ 17 اکتوبر کو شمالی غزہ کے الاہلی ہسپتال میں کام کر رہے تھے جب ایک دھماکہ ہسپتال کے صحن میں ہوا، جو بے گھر لوگوں کی پناہ گاہ بن گیا تھا، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی حکام نے کہا تھا کہ یہ دھماکہ فلسطینی راکٹ کے غلط فائر ہونے کی وجہ سے ہوا۔

غسان ابو سیتا کے مطابق انہوں نے ایسے مریضوں کا بھی علاج کیا جن کے جسم سفید فاسفورس سے جلے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

حماس کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیلی حملہ تھا۔ غسان ابو سیتا نے کہا کہ اس نے جو زخم دیکھے ہیں ان میں سے زیادہ تر ایک اسرائیلی ہیل فائر میزائل سے ہونے والے نقصان سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’یہ میزائل دھات کے ٹکڑوں میں بکھر جاتا ہے جو جسم کو کاٹنے کا باعث بنتا ہے۔‘
تاہم بین الاقوامی گروپ ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ امپیکٹ کریٹر کے ارد گرد پیٹرن میں ہیل فائر میزائل یا اسرائیل کے استعمال کردہ دیگر میزائلوں کا پیٹرن موجود نہیں تھا۔
غسان ابو سیتا نے بتایا کہ غزہ میں انہوں نے ایسے مریضوں کا بھی علاج کیا جن کے جسم سفید فاسفورس کی گولہ باری سے جلے تھے، جو انہوں نے 2009 کی جنگ کے دوران بھی دیکھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ فاسفورس کے شیل کا ’کیمیکل زخم کا سبب بنتے ہیں جو تھرمل زخم کے بجائے جسم میں گہرائی میں جاکر پھٹتے ہیں۔‘
انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے دوران اسرائیلی فورسز نے غزہ اور لبنان کے گنجان آباد رہائشی علاقوں پر سفید فاسفورس کے گولے گرائے ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ وہ اسے صرف دھویں کے طور پر استعمال کرتا ہے نہ کہ شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے۔
جب اسرائیلی فورسز نے شفا سپتال کو گھیرے میں لے لیا تو غسان ابو سیتا وہاں سے نکل گئے تھے اور آخرکار اس ہسپتال پر دھاوا بول دیا گیا جس کو انہوں نے حماس کا کمانڈ سینٹر قرار دیا۔ اسرائیلی حکام نے زیرزمین سرنگ اور کمروں کی تصاویر جاری کیں جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں حماس استعمال کرتی تھی، لیکن مزید شواہد فراہم نہیں کیے گئے۔

غسان ابو سیتا نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ برطانیہ کے جنگی جرائم کی تحقیقات قانونی کارروائی کا باعث بنیں گی (فوٹو: اے ایف پی)

غسان ابو سیتا نے ہسپتال کے دیگر طبی کارکنوں کی طرح اسرائیل کے ان الزامات کی تردید کی۔
انھوں نے کہا کہ انھیں شفا تک مکمل رسائی حاصل ہے اور وہاں ’کبھی بھی کسی فوجی موجودگی نہیں تھی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ برطانیہ کے جنگی جرائم کی تحقیقات مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قانونی کارروائی کا باعث بنیں گی۔

شیئر: