Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپیشل بینچز کی منظوری کمیٹی سے نہیں لی گئی: جسٹس اعجازالاحسن

پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت جسٹس اعجازالاحسن مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے والی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ (فوٹو: سپریم کورٹ)
جسٹس اعجازالاحسن نے سپریم کورٹ میں بینچز کی تشکیل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ دو سپیشل بینچز کی تشکیل کے لیے کمیٹی سے اجازت نہیں لی گئی۔
پیر کو رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام خط میں جسٹس اعجازالاحسن نے لکھا کہ ’سات دسمبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کمیٹی کا اجلاس چیف جسٹس کے چیمبر میں ہوا۔ جہاں میں نے بطور ممبر کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔ متعدد فون کالز کے بعد مجھے کمیٹی کا ایجنڈا ڈھائی بجے فراہم کیا گیا۔‘
پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت جسٹس اعجازالاحسن مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے والی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ اور اپنے خط میں انہوں نے جن دو سپیشل بینچز کی جانب اشارہ کیا ہے ان میں سے ایک سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فیصلے پر انٹرا کورٹ اپیل ہے جس کے لیے چھ رکنی بینچ بنایا گیا ہے۔ دوسرا بینچ ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کے مطابق کمیٹی کے ایجنڈے کے تین نکات تھے: فہرست میں شامل مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنا، فہرست میں شامل آئینی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق کمیٹی کا حکم نامہ اور مقدمات جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق پالیسی کا تعین کرنا۔
’ایجنڈا آئٹم 1 کے تحت کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل پر پانچ رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔ کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے فیصلے کے خلاف اپیلیں سات رکنی بینچ سنے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ من مرضی کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے میری بات سے اتفاق کیا تھا۔‘
’چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ججز سے اس حوالے سے بات کریں گے اور اگر کوئی جج بینچ میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو پھر اگلے سینیئر جج کو بینچ میں شمولیت کے لیے کہا جائے گا۔‘

جسٹس اعجازالاحسن کے مطابق ’کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے فیصلے کے خلاف اپیلیں سات رکنی بینچ سنے گا۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

جسٹس اعجازالاحسن کے مطابق ’سیریل نمبر تین سے چھ کے لیے بھی یہی اصول طے گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی سنیارٹی کی بنیاد پر تین رکنی بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ اگر کوئی جج بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتا تو اگلے سینیئر جج کو بینچ میں شامل کر لیا جائے گا۔‘
’جمعے کو میں نے سارا دن دونوں بینچز کے حوالے سے کسی بھی قسم کی معلومات کا انتظار کیا۔ رجسٹرار آفس سے تین بار فون پر رابطہ کیا گیا جواب میں رجسٹرار نے کہا کہ نوٹ کے ساتھ فائل چیف جسٹس پاکستان کو بھجوا دی گئی ہے۔ جمعے کو آخری کال شام ساڑھے چھ بجے کی گئی جس کے جواب میں بتایا گیا کہ رجسٹرار آفس سے جا چکی ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’چوتھے اور پانچویں اجلاس کے میٹنگ منٹس بھی مجھے جمعے اور سنیچر کو فراہم نہیں کیے گئے۔ دونوں اجلاسوں کے میٹنگ منٹس پر میں نے دستخط ہی نہیں کیےاور میری مرضی کے بغیر یہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیے گئے۔‘

دوسرا بینچ ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

جسٹس اعجازالاحسن نے لکھا کہ کمیٹی کے ممبر ہونے کے ناطے یہ میرا فرض ہے کہ وہ حقائق منظر عام پر لاؤں جن پر اجلاس میں بحث کی گئی۔  
’دونوں سپیشل بینچز کی منظوری کمیٹی سے نہیں لی گئی اور نہ ہی یہ غور کے لیے کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہیں کیے گئے۔ اگر یہ دونوں بینچز کمیٹی کے سامنے پیش کیے جاتے تو میں ان سے اتفاق کرتا، اختلاف کرتا یا رائے دینے سے انکار کرتا۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ ’کمیٹی میں اتفاق کے باوجود سات رکنی بینچ کی بجائے چھ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا، مجھے آج بھی علم نہیں کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ججز نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے ان کو شامل نہیں کیا گیا۔‘

شیئر: