Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زیرِحراست شخص کی ہلاکت، لانگ مارچ کوئٹہ پہنچنے کے بعد بھی جاری

لانگ مارچ چھ دسمبر کو مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے شروع ہوا تھا (فوٹو: ماجد بلوچ)
بلوچستان کے ضلع کیچ میں زیرِحراست شخص کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف لانگ مارچ کوئٹہ پہنچنے کے بعد بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے رات سڑک پر دھرنا دے کر گزاری اور کوئٹہ میں احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا کے مطالبات مان لیے گئے ہیں اس کے بعد احتجاج کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
یہ لانگ مارچ گذشتہ ماہ دہشت گردی کے الزام میں حراست میں لیے گئے بالاچ بلوچ اور ان کے تین ساتھیوں کی ہلاکت کے خلاف چھ دسمبر کو مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے شروع ہوا تھا۔
چاروں افراد کو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم لواحقین کا الزام ہے کہ چاروں افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
تربت سے شروع ہونے والا مارچ پنجگور، بسیمہ، نال، گریشہ، خضدار، سوراب، قلات اور مستونگ سے ہوتا ہوا پیر کی رات کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پہنچا۔ شرکا نے سخت سردی میں رات کوئٹہ کے علاقے سریاب مل میں سڑک پر گزاری۔
احتجاج میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام اس مارچ کی قیادت لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ کررہی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ تربت سے کوئٹہ تک انتظامیہ نے جگہ جگہ کنٹینرز سمیت مختلف رکاوٹیں کھڑی کرکے مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سی ٹی ڈی بلوچستان میں جعلی مقابلوں کی ذمہ دار ہے اس لیے اسے غیر مسلح کیا جائے۔ تربت میں بالاچ سمیت چار افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے والے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے۔ بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرکے مارو اور پھینکو کی پالیسی ترک کی جائے اور یہ یقین دلایا جائے کہ آئندہ کوئی بلوچ نوجوان لاپتہ نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے، اگر ان پر الزامات ہیں تو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ملک کی اعلیٰ عدالت لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنے کے واقعات کا نوٹس لے۔
مارچ میں پولیس مقابلے میں مارے گئے بالاچ بلوچ کے والد مولا بخش بلوچ بھی شریک ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ بالاچ کو سی ٹی ڈی پولیس نے 29 اکتوبر کو تربت کے علاقے آبسر میں اپنے گھر سے اہل خانہ کے سامنے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا اور پھر چند دنوں بعد اس کی گرفتاری ظاہر کرکے عدالت میں پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے بالاچ کو سی ٹی ڈی پولیس کو جسمانی ریمانڈ پر حوالے کیا مگر اس دوران پولیس نے انہیں جعلی مقابلے میں ماردیا۔
مولا بخش کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا بے گناہ تھا، اگر اس پر کوئی الزام تھا تو انہیں قانون ہاتھ میں لے کر قتل کرنے کے بجائے عدالت کے ذریعے سزا دی جاتی۔

شرکاء نے احتجاج کو طول دیتے ہوئے منگل کو بھی کوئٹہ کی سڑکوں پر مارچ کیا (فوٹو: ماجد بلوچ)

لانگ مارچ کے شرکا نے منگل کو کوئٹہ میں ریڈ زون کے قریب احتجاج کا عندیہ دیا تھا جس کے پیش نظر پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے ریڈزون کو چاروں اطراف سے کنٹینر لگا کر سیل کردیا۔
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سعد بن اسد نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور کہا کہ ریڈ زون میں احتجاج پر عدالتی احکامات پر پابندی لگائی گئی ہے۔ مظاہرین کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم سمیت کسی مناسب مقام پر احتجاج کرسکتے ہیں۔
شرکا نے احتجاج کو طول دیتے ہوئے منگل کو بھی کوئٹہ کی سڑکوں پر مارچ کیا اور مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے سریاب روڈ پر  کیمپ لگا دیا جہاں وہ رات کو قیام کرکے صبح شہر کی جانب پیش قدمی کریں گے۔
مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو لانگ مارچ کو طول دیتے ہوئے اسلام آباد تک بھی جاسکتے ہیں۔
ادھر بلوچستان ہائی کورٹ نے پولیس مقابلے میں بالاچ بلوچ کی ہلاکت کے معاملے پر دائر کی گئی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سی ٹی دی مکران کے چار اہلکاروں کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔
 چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل بنچ نے پیر کو حکم جاری کیا کہ منصفانہ تحقیقات کے لئے سی ٹی ڈی مکران کے ریجنل آفیسر عادل عامر، انویسٹی گیشن آفیسر سی ٹی ڈی عبداللہ، سی ٹی ڈی تربت تھانہ کے ایس ایچ او عبدالاحد اور لاک اپ انچارج کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔ عدالت نے معاملے کی تفتیش کرائم برانچ کے حوالے کرنے کا بھی حکم دیا۔
اس سے قبل تربت کی سیشن عدالت کے حکم پر تربت کی سٹی پولیس نے سی ٹی ڈی تربت کے ایس ایچ او اور دیگر اہلکاروں کے خلاف بالاچ بلوچ کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ یہ مقدمہ بالاچ کے والد مولا بخش کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

بالاچ بلوچ کے لواحقین نے سی ٹی ڈی پر زیر حراست ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا (فوٹو: اسد اللہ بلوچ)

نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پیر کو  پولیس لائن اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بطور ریاست لڑنی ہے تو عدلیہ سمیت تمام اداروں کو ساتھ دینا ہوگا۔
خیال رہے کہ تربت کے رہائشی بالاچ بلوچ نامی شخص کو سی ٹی ڈی نے 22 نومبر کی شب تربت کے علاقے پسنی روڈ پر ایک ان کاؤنٹر میں تین دیگر ساتھیوں سمیت ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
سی ٹی ڈی کے مطابق ملزم بالاچ کا تعلق کالعدم بلوچ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے تھا اور انہیں ہلاکت سے کچھ روز قبل ایک کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق گرفتار ملزم کی نشاندہی پر ان کے ساتھیوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا جس کے دوران ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔
تاہم بالاچ بلوچ کے لواحقین نے سی ٹی ڈی پر زیر حراست ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا اور لاش کے ہمراہ تربت میں احتجاج شروع کر دیا جو دو ہفتوں تک جاری رہا۔ اس کے بعد احتجاج کو وسعت دیتے ہوئے کوئٹہ کی جانب مارچ شروع کیا گیا۔
نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کا الزام ہے کہ بالاچ بلوچ کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا اور وہ دہشت گردی کی 11 وارداتوں میں ملوث تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد کے لیے لانگ مارچ کرنے والے تربت اور بلوچستان میں بے گناہ مارے گئے عام افراد اور غیر مقامی مزدوروں کے قتل پر کیوں خاموش رہتے ہیں، وہ ان کے لیے کیوں کبھی احتجاج نہیں کرتے۔
جان اچکزئی کے مطابق ’حکومت نے مارچ کے شرکا سے مذاکرات کیے۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں کو معطل کرنے، مقدمہ درج کرنے اور تحقیقات شروع کرنے سمیت جو مطالبات تھے وہ مان لیے گئے اب اس احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘

شیئر: