Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف احتجاج، تربت سے کوئٹہ لانگ مارچ

تربت کی ایک مقامی عدالت نے واقعہ کا مقدمہ سی ٹی ڈی افسران کے خلاف درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ فوٹو: اسداللہ بلوچ ٹوئٹر
بلوچستان کے ضلع کیچ میں زیرحراست شخص کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف احتجاج طول اختیار کر گیا ہے۔ لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دو ہفتوں کے دھرنے کے بعد تربت سے کوئٹہ کے لیے لانگ مارچ شروع کیا ہے۔
مارچ کے شرکاء بدھ کو کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت سے نکلے اور رات کو پنجگور پہنچ کر کیمپ قائم کیا۔ جمعرات کو مارچ کے شرکاء نے پنجگور شہر میں جاوید چوک سے ریلی نکالی اور مختلف شاہراہوں پر گشت کے بعد واپس جاوید چوک پہنچ کر مظاہرہ کیا۔
احتجاج میں سول سوسائٹی کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی۔ مظاہرین نے لاپتہ افراد کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر اُن کی بازیابی کے مطالبات درج تھے۔
یہ احتجاج 23 نومبر کو تربت کے رہائشی بالاچ بلوچ نامی شخص کی ہلاکت کے خلاف شروع ہوا جنہیں انسداد دہشتگردی پولیس (سی ٹی ڈی) نے 22 نومبر کی شب کو تربت کے علاقے پسنی روڈ پر ایک مقابلے میں تین دیگر ساتھیوں سمیت ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
سی ٹی ڈی کے مطابق ملزم بالاچ کا تعلق کالعدم بلوچ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے تھا اور انہیں ہلاکت سے کچھ روز قبل ایک کارروائی کے دوران گرفتار کیا تھا۔
سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق گرفتار ملزم کی نشاندہی پر ان کے ساتھیوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا جس کے دوران ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔
تاہم بالاچ بلوچ کے لواحقین نے سی ٹی ڈی پر زیر حراست ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا اور لاش کے ہمراہ تربت میں احتجاج شروع کیا۔ دھرنوں اور مظاہروں کے علاوہ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال بھی کی گئی۔
تربت کی ایک مقامی عدالت نے واقعہ کا مقدمہ سی ٹی ڈی افسران کے خلاف درج کرنے کا حکم دیا تھا۔
بلوچستان حکومت نے بھی سیکریٹری ماہی گیری عمران گچکی کی سربراہی میں معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے ۔
تربت میں دو ہفتے تک احتجاج کرنے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ شروع کیا جس کی قیادت سمی دین بلوچ اور عبدالوہاب بلوچ کر رہے ہیں۔
احتجاج کے دوران تربت اور پنجگور میں لاپتہ افراد کے کوائف جمع کرنے کے لیے کیمپ بھی لگائے گئے۔

پولیس مقابلے میں مارے گئے بلوچ نوجوان کے لواحقین بھی احتجاج میں شریک ہیں۔ فوٹو: سکرین گریب

سمی دین بلوچ، عبدالوہاب بلوچ اور دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کے لواحقین میں تشویش پائی جاتی ہے۔ عدالتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس صورتحال کا نوٹس لیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت لاپتہ افراد کو فوری بازیاب کرائے اور اگر ان پر الزامات ہیں تو عدالتوں میں پیش کریں۔
دوسری جانب نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان اچکزئی کا کہنا ہے کہ بالاچ بلوچ کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا اور وہ دہشتگردی کی گیارہ وارداتوں میں ملوث تھا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک دہشتگرد کے لیے لانگ مارچ کرنے والوں نے تربت میں قتل ہونے والے مزدوروں یا عام شہریوں کی دہشتگردوں کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف کیوں کبھی احتجاج نہیں کیا۔

شیئر: