22 سالہ بالاچ بلوچ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس کی 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب تربت کے علاقے پسنی روڈ پر ہونے والی ایک کارروائی میں تین ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے۔
بالاچ بلوچ کی بہن نجمہ بلوچ کا الزام ہے کہ ان کے بھائی کو سکیورٹی فورسز نے 29 اکتوبر کو تربت کے علاقے آبسر میں اپنے گھر سے آدھی رات کو اہلخانہ کے سامنے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی نے ان کے بھائی کی گرفتاری 20 نومبر کو ظاہر کی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے انہیں 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر سی ٹی دی کے حوالے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عدالت سے ریمانڈ لینے کے دو روز بعد ہی انہیں جعلی مقابلے میں مارا گیا ۔ ہم خوش تھے کہ ہمارے لاپتہ بھائی کا پتہ چل گیا انہیں عدالت میں پیش کیا گیا مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ انہیں اس طرح جعلی مقابلے میں مار دیا جائےگا۔‘
سی ٹی ڈی نے 23 نومبر کو جاری ہونےوالے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ بالاچ بلوچ کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے تھا اور ان کی موت چھاپے کے دوران اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہوئی۔
سی ٹی ڈی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بالاچ ولد مولا بخش کو 20 نومبر کو پانچ کلو گرام بارودی مواد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کیا گیا۔
بیان کے مطابق ’دوران تفتیش بالاچ نے اعتراف کیا کہ اس کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے ہے اور اس نے ٹارگٹ کلنگ، دستی بم اور بم دھماکوں کی کارروائیوں کا اعتراف بھی کیا۔‘
سی ٹی ڈی کے مطابق ملزم بالاچ کی نشاندہی پر پسنی روڈ پر واقع ان کے ساتھی دہشت گردوں کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا تو پہلے سے موجود دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کردی، دستی بم پھینکے اور راکٹ بھی فائر کیا جس سے پولیس کی گاڑی کو نقصان پہنچا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس دوران دہشت گردوں کی فائرنگ سے بالاچ ہلاک ہوگیا، جبکہ اس کے ساتھ موجود اہلکار بلٹ پروف جیکٹ پہننے کی وجہ سے محفوظ رہا۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں تین دیگر دہشت گرد بھی مارے گئے۔
تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست بلوچ کا کہنا ہے کہ ’بالاچ بلوچ کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا وہ سی ٹی ڈی کی حراست میں تھے۔ ان کے ساتھ مارے جانے والے باقی تینوں افراد بھی جبری طور پر لاپتہ تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے خلاف تربت میں پانچ روز سے دھرنا جاری ہے جس میں بالاچ کے لواحقین ان کی میت کے ہمراہ شریک ہیں۔