راولپنڈی میں فراڈ کے دو مقدمات جن کے حل کے لیے سینیٹ کو مداخلت کرنا پڑی
راولپنڈی میں فراڈ کے دو مقدمات جن کے حل کے لیے سینیٹ کو مداخلت کرنا پڑی
جمعہ 15 دسمبر 2023 10:30
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
سینیٹ چیئرمین کے نوٹس لینے پر پولیس حرکت میں آئی (فوٹو: سینیٹ ویب سائٹ)
پاکستان کی پارلیمنٹ میں قومی معاملات پر قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے ایک معاملے پر ہفتوں بحث ہوتی ہے۔ کئی بار تو قوانین کے مسودے مہینوں قومی اسمبلی، سینیٹ اور ان کی قائمہ کمیٹیوں کی کارروائی کا حصہ رہتے ہیں۔
قائمہ کمیٹیاں آئے روز قومی اداروں کو مختلف معاملات پر بریفنگ کے لیے بلاتی ہیں اور پھر مفصل بحث کے بعد ان کے متعلق فیصلے کرتی ہیں اور تجاویز تیار کرتی ہیں۔
ان معاملات کی کثیر تعداد کی وجہ سے تقریباً ہر پارلیمانی ادارے کے ہر اجلاس کا ایجنڈا بھرپور ہوتا ہے اور بسا اوقات کئی اہم قومی معاملات کو اس ایجنڈے پر لانے کے لیے کافی انتظارکرنا پڑتا ہے۔
بالخصوص اہم شعبوں سے متعلق قائمہ کمیٹیاں جیسے داخلہ، خارجہ، خزانہ، تجارت وغیرہ کے ہر اجلاس میں اہم ترین امور زیر بحث لائے جاتے ہیں۔
تفتیشی افسر کی سطح کا کیس چیئرمین سینیٹ کے پاس
حال ہی میں سینیٹ سیکریٹریٹ اور اس کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ایک ایسے معاملے میں مداخلت کرنا پڑی ہے جو کسی بھی تھانے کا ایک ماتحت تفتیشی افسر آرام سے حل کر سکتا تھا، مگر یہ معمولی معاملہ اس وقت تک حل نہیں ہوا جب تک کہ چیئرمین سینیٹ اور بعدازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے اس کا سخت نوٹس نہیں لیا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ قبل بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے ایک رہائشی عمار عباسی نے اپنی گاڑی ہنڈا سٹی فروخت کے لیے پیش کی۔
دو دن کی چھٹی کے بعد چیک بینک لے جایا گیا تو اس کے جعلی ہونے کا انکشاف ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
ان سے محمد آصف نامی شخص نے رابطہ کیا اور ان کی گاڑی 40 لاکھ روپے میں خریدنے کے لیے سودا طے کر لیا۔ تمام معاملات طے پا جانے کے بعد انہیں آصف نامی شخص نے نیشنل بنک کا تیارکردہ ایک ڈرافٹ دیا اور گاڑی بمع کاغذات وصول کر لی۔
یہ جمعے کا روز تھا اور اس کے بعد دو دن تک بنک کی ہفتہ وار چھٹیاں تھیں۔ چھٹیوں کے بعد جب عمار عباسی ڈرافٹ لے کر بنک گیے تو انہیں پتہ چلا کہ یہ جعلی ہے۔
تب تک آصف گاڑی اور اس کے کاغذات سمیت غائب ہو چکے تھے۔ گاڑی کھونے اور دھوکہ دہی سے پریشان عمار راولپنڈی کے تھانہ روات گئے تو پولیس نے یہ کہہ کر کارروائی کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ دو کاروباری افراد کا باہمی تنازع ہے لہٰذا جب تک ان کی دوسرے فریق سے بات نہیں ہوتی، اس پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
اسی دوران عمار عباسی کو علم ہوا کہ ان کی گاڑی راولپنڈی ہی کے ایک کار شو روم کو فروخت کر دی گئی ہے اور اس وقت وہ وہاں موجود ہے۔ انہوں نے پولیس کو بھی اس سے آگاہ کیا لیکن پولیس نے پھر بھی کارروائی اور گاڑی برآمد کروانے سے انکار کر دیا۔
تھانے کچہری کے چکروں کے دوران عمار عباسی کی ایک حساس ادارے کے اعلٰی افسر سے ملاقات ہوئی جن کے ساتھ بھی اسی محمد آصف نے ایسا ہی دھوکہ کیا تھا اور 50 لاکھ کے جعلی چیک کے ذریعے ان سے ہنڈا سوک گاڑی ہتھیا لی تھی۔
روات تھانے سے رجوع کرنے پر شہری کو بتایا گیا کہ یہ باہمی لین دین کا معاملہ ہے، پولیس کچھ نہیں کر سکتی (فائل فوٹو)
انہوں نے راولپنڈی کے کینٹ تھانے میں اس کے خلاف شکایت کی تھی لیکن حیران کن طور پر پولیس اس کیس میں بھی کوئی کارروائی نہیں کر رہی تھی اور حساس ادارے کے افسر پولیس کو کارروائی پر مجبور کرنے کے لیے اپنے ادارے کے اہم افسران کے ذریعے اپنی گاڑی واپس لینے کی کوشش کر رہے تھے۔
عمار عباسی نے بھی کچھ جاننے والے بااختیار لوگوں سے بات کی جس کے بعد ان کا ایک دوست کے ذریعے سینیٹر پلوشہ بہرام سے رابطہ ہوا۔
سینیٹر پلوشہ بہرام نے ان دونوں متاثرین کو پبلک پیٹیشن (عوامی درخواست) کے ذریعے معاملہ چیئرمین سینیٹ کے سامنے اٹھانے کا کہا جنہوں نے اس کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بھجوا دیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے چیئرمین سینیٹ کے نوٹس لینے کے بعد معاملے پر کارروائی کے لیے پنجاب پولیس کے اعلٰی افسران کو طلب کر لیا اور ہدایت کی کہ وہ کمیٹی کے اجلاس میں آ کر اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔
اس کے بعد پولیس نے کارروائی کا آغاز کیا اور دونوں گاڑیاں برآمد کروا لیں۔
شہری کا کہنا ہے کہ پولیس نے ہتک آمیز رویہ اپنایا (فائل فوٹو)
لیکن وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے ان معاملات کے حل میں دلچسپی نہ لینے کی وجوہات بیان کرنے میں ناکام رہے۔
پولیس کا تعاون کی بجائے ہتک آمیز رویہ
عمار عباسی نے ان دونوں واقعات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس نے ان سے تعاون کے بجائے ہتک آمیز رویہ اپنایا اور اگر سینیٹ کی طرف سے مداخلت نہ کی جاتی تو ان کو اپنی گاڑی شاید کبھی واپس نہ ملتی۔
انہوں نے کہا کہ یہ دو گاڑیوں کا معاملہ سادہ نہیں ہے اور درحقیقت محمد آصف گاڑیوں کے شوروم، کچھ بینک ملازمین اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر باقاعدہ ایک دھوکے باز گروہ کے طور پر کام کر رہا ہے۔
تاہم پنجاب پولیس کے سینیئر افسران نے اس الزام کی تردید کی ہے اور قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہو کر ان واقعات میں سستی پر معافی مانگی ہے۔
وائٹ کالر جرائم کی پیچیدگی
اس موقع پر متعلقہ پولیس حکام نے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین محسن عزیز کو بتایا کہ ان دونوں واقعات میں سستی کا مظاہرہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جا رہی ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وائٹ کالر کرائم میں اکثر ابتدائی شکایات درست ثابت نہیں ہوتیں (فوٹو: روئٹرز)
انہوں نے کہا کہ وائٹ کالر جرائم میں اکثر ابتدائی شکایات درست ثابت نہیں ہوتیں اس لیے پولیس کارروائی کے آغاز کے لیے سات دن تک کا وقت لیتی ہے تاکہ حتمی کارروائی سے پہلے دوسرے فریق کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر سکے اور اس کو بھی اپنا موقف بیان کرنے کا موقع مل سکے۔
تاہم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے یہ وضاحت مکمل طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور راولپنڈی کے سینٹرل پولیس آفیسر کو اگلے اجلاس میں آ کر وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
پولیس ملوث ہے یا مجرمانہ خاموشی کی مرتکب
دوسری طرف عمار عباسی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے منظم گروہ عام لوگوں کو روزانہ کی بنیادوں پر لوٹ رہے ہیں اور پولیس یا تو ان کے ساتھ ملوث ہے اور یا مجرمانہ خاموشی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
انہوں نے حکومت اور عوامی نمائندوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں پولیس عوام کی فوری داد رسی کرے اور جرائم پیشہ لوگوں سے تعاون کی بجائے عوام کا ساتھ دے۔