شادی اور ملازمت کا جھانسہ، لاہور سے 500 لڑکیاں اغوا کے بعد سندھ میں فروخت
شادی اور ملازمت کا جھانسہ، لاہور سے 500 لڑکیاں اغوا کے بعد سندھ میں فروخت
بدھ 20 دسمبر 2023 7:12
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
شیخوپورہ پولیس نے گرفتار ملزموں کی نشاندہی پر علیشا کو بازیاب کروایا تو اور بہت سے انکشافات ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
یہ 2 جون کی صبح تھی۔ گرمی کی حدت سے شہری نڈھال ہو رہے تھے۔ انہی لوگوں میں شیخوپورہ کی 15 سالہ لڑکی علیشا بھی شامل تھی۔
علیشا لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک پیٹرول پمپ کے قریب گاڑی سے اتری تو وہ ارد گرد گاڑیوں کے شور اور بھیڑ سے گھبرا گئی۔ اُس کے پاس فون بھی نہیں تھا جو وہ دانستہ طور پر اپنے گھر چھوڑ آئی تھی۔
گرمی کی شدت کے باعث علیشا پسینے سے شرابور تھی، لیکن اس کی نظریں آس پاس بھیڑ میں کسی کو تلاش کر رہی تھیں اور وہ بھیڑ میں جس شخص کو تلاش کر رہی تھی، وہ کہیں موجود نہیں تھا۔
وہ آج صبح ہی اپنے گھر سے ایک انجان شخص کے کہنے پر بھاگی تھی لیکن یہاں بھیڑ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ علیشا کا ندیم نامی اس شخص سے فیس بک کے ذریعے رابطہ ہوا تھا۔
کافی دن آن لائن رابطہ رہنے کے بعد دونوں کے درمیان محبت بڑھنے لگی۔ علیشا کو موبائل پر روزانہ اس انجان شخص کے پیغامات موصول ہو رہے تھے اور دونوں زندگی بھر ساتھ رہنے کے وعدے کر رہے تھے۔
ندیم نے علیشا سے وعدہ کیا کہ وہ لاہور آئے گی تو وہ دونوں شای کر لیں گے۔ علیشا کو لگا کہ اس نے اپنے جیون ساتھی کو پا لیا ہے اور دونوں کے درمیان فاصلوں کے سوا اب کچھ حائل نہیں۔
ندیم نے جب علیشا کو لاہور آنے کا کہا تو اس سے رہا نہ گیا۔ 2 جون کی اس صبح جب اُس کی والدہ کام پر گئی تو علیشا گھر سے بھاگ گئی تاکہ وہ اپنی انجان محبت کو پا لے، لیکن علیشا بے خبر تھی اور نہیں جانتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔
لاہور میں علیشا کو ندیم نہ ملا تو وہ ٹوٹ گئی۔ وہ تھکی ہاری داتا دربار کے احاطے میں پہنچی اور صحن میں بیٹھ گئی۔
دن بھر کی تھکاوٹ اور یاسیت نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ اس دوران ایک خاتون اس کے پاس آئی اور اس سے اس کا حال احوال دریافت کیا اور علیشا کی حالت جان کر اسے دلاسہ دیا اور کہا کہ وہ اسے کسی اچھی جگہ کام دلوا دے گی یا پھر کہیں شادی کروا دے گی۔
علیشا کے سامنے اس انجان خاتون کی بات کا یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور یوں ان دونوں کی دوستی ہو گئی۔
دوسری جانب علیشا کی والدہ نے شیخوپورہ کے تھانہ فیکٹری ایریا میں اس کے اغوا کی ایف آئی آر درج کروا دی تھی۔
شیخوپورہ پولیس کے ترجمان واجد عباس نے اُردو نیوز سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’علیشا کی والدہ کو ایک فون کال موصول ہوئی اور یہ کہا گیا کہ اُن کی بچی سندھ میں ہے اور وہ 25 لاکھ روپے تاوان ادا کر کے اپنی بچی آزاد کروا سکتی ہے جس کے بعد علیشا کی والدہ نے 6 جون کو اس کے اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔‘
شیخوپورہ پولیس کے ترجمان کے مطابق پولیس نے کارروائی شروع کی تو یہ کیس کافی طویل چلا۔ اس دوران علاقے کے دو مقامی سیاست دانوں نے خاتون کو ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر نے کا مشورہ دیا، چنانچہ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی کہ ان کی بچی نہیں مل رہی۔
واجد عباس نے بتایا کہ ’عدالت نے مقامی تھانے کے ایس ایچ او کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر بچی بازیاب نہ کروائی گئی تو انہیں معطل کر دیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈی پی او شیخپورہ زاہد مروت نے مقدمے میں ذاتی طور پر دلچسپی لی اور ہر طرح سے اس کیس کو حل کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ پولیس کو اس کیس میں ایک گینگ کا سراغ بھی ملا۔‘
شیخوپورہ پولیس علیشا کی تلاش میں لاہور پہنچی اور سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کی مدد سے اس کو تلاش کرنا شروع کیا تو پولیس کو داتا دربار کے علاقے میں علیشا سے بات چیت کرتے ہوئے کچھ لوگ نظر آئے۔
پولیس کے مطابق ’ہم نے مطلوبہ افراد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کے بعد ایک شخص کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے جب اس شخص سے تفتیش کی تو پہلے تو اس نے منہ نہ کھولا، لیکن پھر اس نے اپنے گینگ اور لڑکیوں کو اغوا کرنے کی وارداتیں کرنے کا اعتراف کر لیا۔‘
تفتیش کرنے پر پولیس کو معلوم ہوا کہ اس گینگ کا مرکزی کردار کراچی میں رہائش پذیر لطیفاں بی بی نامی خاتون ہے جبکہ اس کا شوہر خان محمد بھی ان وارداتوں میں ملوث ہے۔
ملزم نے پولیس کو اپنے گینگ کی واردات کے طریقۂ کار کے بارے میں بتایا کہ ’لطیفاں بی بی کراچی سے لاہور میں چھ لوگوں سے رابطے میں رہتی ہے۔ تین خواتین اور تین مرد لاہور میں کارروائیاں کرتے ہیں، یہ چھ لوگ مختلف لڑکیوں کے پاس جاتے ہیں اور ان کو قائل کرتے ہیں کہ وہ ان کی شادی کروا دیں گے یا ان کو کسی اچھی جگہ کام دلوا دیا جائے گا۔ وہ پھر ان سب کو لاہور سے سندھ کے کچے کے علاقے میں منتقل کر دیتے ہیں۔‘
شیخوپورہ پولیس کے ترجمان نے علیشا پر گزرے حالات کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ ’لاہور کے علاقے داتا دربار میں جب انجان خاتون نے علیشا کو ورغلایا تو اس نے اس بارے میں کراچی میں موجود لطیفاں بی بی کو آگاہ کر دیا تھا، جس کے بعد انجان خاتون نے علیشا کو لطیفاں بی بی کے ہاتھوں 20 ہزار میں فروخت کر دیا۔ یہ گروہ منظم طریقے سے وارداتیں کرتا ہے، لاہور سے دو افراد علیشا کو کراچی چھوڑنے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لطیفاں بی بی نے ان لوگوں کو آنے جانے کا خرچہ اور 20 ہزار روپے دیے۔ پولیس کو جلد ہی یہ معلوم ہوا کہ ان دونوں لوگوں نے راستے میں پندرہ سالہ علیشا سے ریپ بھی کیا۔‘
ان کے مطابق ’علیشا جتنی دیر لطیفاں کے ہاں رہی تو اس کا شوہر خان محمد بھی اس کا ریپ کرتا رہا۔ پھر لطیفاں بی بی نے علیشا کو اندرون سندھ کے شہر قمبر میں دو لاکھ روپے کے عوض بیچ دیا جس کے بعد وہ سندھ میں ہی آٹھ بار فروخت کی گئی۔‘
پولیس کو علیشا کا سراغ مل چکا تھا اور مبینہ گینگ کے بارے میں معلومات بھی موجود تھیں لیکن پولیس کے سامنے اب اس پورے گینگ کو پکڑنے کا ٹاسک تھا۔ پولیس نے ملزموں کو پکڑنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا۔
شیخوپورہ پولیس کے ترجمان کے مطابق ’ہم نے اپنی ایک لیڈی کانسٹیبل کو تیار کیا اور گرفتار ملزم کو بتایا کہ وہ لطیفاں بی بی کو فون کال کر کے بتائے کہ وہ ایک اور لڑکی کو سندھ لا رہے ہیں۔ اس سب کے بارے میں لطیفاں بی بی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے اہلکار جب ملزم اور لیڈی کانسٹیبل کو لے کر سندھ کے کچے کے علاقے میں پہنچے تو وہاں سے لطیفاں بی بی اور بعد ازاں اس کے شوہر کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔‘
لطیفاں بی بی اور دیگر ملزمان نے دورانِ تفتیش بہت سے پریشان کن انکشافات کیے۔
لطیفاں بی بی نے پولیس کو بتایا کہ ’انہوں نے اب تک 500 کے قریب لڑکیوں کو لاہور سے بہلا کر اغوا کیا اور سندھ کے کچے کے علاقے میں فروخت کیا اور ان کے عوض بھاری قیمت حاصل کی۔‘
لطیفاں نے پولیس کو بتایا کہ ’جو لڑکیاں درباروں پر آتی ہیں یا گھر سے بھاگی ہوتیں تو ہم انہیں ٹریپ کر کے اغوا کر لیتے۔‘
شیخوپورہ پولیس کے مطابق ’یہ گینگ اس لیے بھی اب تک پولیس کی گرفت میں آنے سے محفوظ رہا کیوںکہ جب بھی پولیس انہیں پکڑنے جاتی یا کسی لاپتہ لڑکی کا سراغ ملتا تو لطیفاں بی بی ان لڑکیوں کی شادیاں کروا دیتی جس کے بعد یہ لڑکیاں پولیس کو یہ بیان دیتیں کہ ان کی شادی ہوگئی ہے، اس کے باعث پولیس کی کارروائی کامیاب نہیں ہو پاتی تھی۔‘
شیخوپورہ پولیس نے گرفتار ملزموں کی نشاندہی پر علیشا کو بازیاب کروایا تو اور بہت سے انکشافات ہوئے۔
شیخوپورہ پولیس کے مطابق ’لطیفاں بی بی نے علیشا کو نو مختلف مقامات پر فروخت کرنے کا انکشاف کیا، لیکن سندھ اور بلوچستان کے بارڈر پر مہر نامی ایک علاقے سے بالآخر ہمیں علیشا مل گئی اور ہم اسے لے کر پنجاب آگئے، وہ اب پولیس کی تحویل میں ہے۔‘
شیخوپورہ پولیس کے ترجمان واجد عباس نے مزید بتایا کہ ’پولیس نے اس کیس میں آٹھ ملزموں کو حراست میں لیا ہے جن میں چار مرد اور ان کی بیویاں شامل ہیں۔علیشا کی نشاندہی پر ہی ہم اس گینگ کو پکڑنے میں کامیاب ہوئے، لیکن پھر علیشا اور اس کی والدہ نے بیان بدلنے کی کوشش بھی کی تاہم اب ہم نے علیشا کو باحفاظت اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے تاکہ اس گینگ کو کڑی سے کڑی سزا دلوائی جا سکے۔‘
پولیس نے ڈی پی او زاہد مروت کی سربراہی میں علیشا کو عدالت میں پیش کیا اور اس ساری واردات کے بارے میں آگاہ کیا۔
عدالت نے علیشا کی بازیابی کی درخواست نمٹاتے ہوئے حکم جاری کیا کہ ’اس معاملے کی مزید گہرائی سے جانچ کی جائے اور مغوی بچیوں کی بازیابی کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے۔‘