پانی پت کی جنگ جو ظہیرالدین بابر نے ’جدید ٹیکنالوجی‘ سے جیتی
پانی پت کی جنگ جو ظہیرالدین بابر نے ’جدید ٹیکنالوجی‘ سے جیتی
منگل 26 دسمبر 2023 6:26
راحِل مرزا -نئی دہلی
ظہیرالدین محمد بابر نے 1526 میں اہراہیم لودھی کے خلاف پانی پت کے مقام پر جنگ لڑی (فوٹو: چانکیہ فورم)
جدید ہتھیار جس جنگ میں بھی استعمال کیے گئے دنیا کا نقشہ تبدیل ہوا، چاہے دوسری عالمی جنگ کی بات کریں جس میں پہلی بار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیار استعمال کیے گئے یا پھر ظہیرالدین محمد بابر کے اس حملے کا جو انہوں نے ہندوستان پر کیا۔
ہندوستان میں مغل حکومت کے قیام کا سہرا بھی جدید ہتھیاروں کے سر ہی ہے جب سنہ 1526 میں پانی پت کے میدان میں کابل کے بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر نے دہلی سلطنت پر متمکن ابرہیم لودھی کی دس گنا بڑی فوج کے خلاف توپ کا استعمال کرتے ہوئے میدان مار لیا تھا۔
آج سے کوئی 500 سال قبل یہ تاریخ ساز جنگ لڑی گئی تھی جس نے ہندوستان کی تقدیر بدل ڈالی اور اسے وہ سب کچھ عطا کیا جس پر آج ہندوستان کو ناز ہے۔
مشہور مورخ پال کے ڈیوس نے اپنی کتاب ’100 فیصلہ کن جنگیں‘ میں ظہیر الدین محمد بابر کی دہلی سلطنت کے فرمانروا ابراہیم لودھی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو نہایت اہم قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ ماضی میں جس طرح سلطنت عثمانیہ نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جنگ جیتی اسی طرح بابر نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی اور پانی پت کی جنگ جیتی۔
بابر نے جب کابل سے ہندوستان پر حملے کا قصد کیا اور دریائے سندھ کو عبور کیا تو دہلی کے تخت پر براجمان ابراہیم لودھی کو اس کی خبر ہوئی تو انہیں خطرے کا احساس ہوا اور بابر کو شکست دینے کے لیے ایک بڑی فوج جمع کی جس میں ہاتھیوں کا ایک بڑا قافلہ بھی شامل تھا۔
تاریخ دان آر پی ترپاٹھی اپنی کتاب ’سلطنت مغلیہ کا عروج و زوال‘ میں لکھتے ہیں کہ اس سے قبل پنجاب کے علاقے میں وہاں کے گورنر دولت خان لودھی نے بابر کی فوج کو منتشر اور کمزور کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے جس پر انھیں ابراہیم لودھی کا ایک مکتوب ملا جس میں ان کی سرزنش کی گئی تھی کہ انھوں نے بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی جسے دولت خان لودھی کسی بھی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’غازی خان کے فرار ہونے اور دولت خان کی جانب سے شکست قبول کرنے کے نتیجے مین بابر نے بغیر جنگ کے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور پھر بابر کی حوصلہ مند فوج دہلی کی طرف کوچ کرنے لگی۔‘
بہر حال دہلی سے تقریبا 25، 30 کوس کی دوری پر جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو لودھی کی فوج آنے والی بابر کی فوج سے تقریباً دس گنا زیادہ تھی۔
یہ پانی پت کی ہی جنگ تھی جس نے برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی تھی اور پہلی بار بارودی توپوں کا استعمال کیا گیا تھا۔
بابر کی جنگی فہم و فراست
آرپی ترپاٹھی لکھتے ہیں کہ بابر کی فن جنگ کی معلومات بہت وسیع تھیں اور انہوں نے منگولوں، ازبکوں اور ایرانیوں کی جنگی تدابیر کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس غیرملکی فوجی افسران بھی تھے جو آتشیں اسلحے کے استعمال کا تجربہ رکھتے تھے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’پانی پت کی جنگ میں افغانوں کو پہلی مرتبہ ایک ایسے زبردست لشکر کا مقابلہ کرنا پڑا جو رسالوں اور آتشیں اسلحے سے پوری طرح آراستہ تھا۔‘
بابر چونکہ پانی پت پہلے پہنچ چکے تھے اس لیے انہوں نے پہلے سے جنگی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیں۔ انہوں نے پانی پت شہر کو اپنی فوج کے ایک حصے کی حفاظت کے لیے استعمال کیا۔ دوسرے حصے کی حفاظت کے لیے خندقیں کھودیں اور کٹے ہوئے درختوں کے ساتھ خاردار جھاڑیاں بچھوا دیں اور سامنے کی طرف سینکڑوں بیل اور گھوڑا گاڑیوں کو آپس میں سوکھی کھال کے رسوں سے مضبوطی کے ساتھ باندھ کر اس طرح کھڑا کیا کہ راستہ بالکل بند نہ ہو بلکہ چند گاڑیوں کے بیچ بیچ میں جگہ خالی رکھی گئی اور وہاں بندوقچیوں اور توپچیوں کے لیے سینے کی بلندی تک مٹی کے پشتے کھڑے کر دیے گئے۔
انھوں نے مزید لکھا کہ ’اس کے ساتھ یہ خیال بھی رکھا گیا کہ اگر مناسب موقعہ ہاتھ لگے تو گھڑسواروں کے نکلنے کی گنجائش باقی رہے۔ اس انتظام کے پیچھے بابر نے اپنی فوج کو قدیم تیموری طرز پر آراستہ کیا اور ازبک طرز کے ایسے دستوں کو شامل کیا جو آسانی سے اپنی جگہ بدل سکیں۔‘
دوسری جانب ابراہیم لودھی کی بڑی فوج تھی جس کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جس میں دو ہزار ہاتھی بھی تھے جو کہ اگر اپنی جگہ سے نہ ہلتے تو وہ اپنے آپ میں ایک دیوار ثابت ہو سکتے تھے۔
بابر کی خواہش تھی کہ وہ ابراہیم لودھی کو حملے کے لیے مجبور کریں کیونکہ تاخیر کی صورت میں پیچیدگیوں میں اضافے اور فوج کی حوصلہ شکنی کا خدشہ تھا۔
بہرحال فوج پوری قوت سے حملہ آور ہوئی لیکن سامنے کی صف کو تنگ دیکھ کر اس میں ہچکچاہٹ پیدا ہوئی اور جب وہ ایک دم سے حملہ آور ہوئی تو فوج کی ترتیب بگڑ گئی اور لشکر کا مرکزی حصہ ایک بے ترتیب ہجوم میں تبدیل ہو گيا۔
اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بابر نے ایک طرف تو اپنے سبک رفتار دستوں کو حکم دیا کہ وہ دشمن کی فوج کو بائیں دائیں اور یہاں تک کہ پیچھے سے گھیر لیں اور دوسری طرف توپچیوں کو حکم دیا کہ وہ گولے برسانا شروع کریں۔ اس کی وجہ سے فوج نرغے میں آ گئی اور ہر طرف سے سمٹ کر ایک غیر منظم ہجوم کی شکل اختیار کر گئی اور سب کے سب موت کا پیغام لیے آنے والے توپ کے گولوں کی زد پر تھے۔
ابراہیم لودھی کے ہاتھی جو اس کے لیے بڑا جنگی حربہ تھے وہ توپ کے گولوں کے عادی نہیں تھے اور ان میں افراتفری پھیل گئی اور وہ پیچھے مڑ کر بھاگنے لگے جس کی وجہ سے ابراہیم لودھی کے پیادہ فوجی بھی مارے گئے۔
ابراہیم لودھی نے محمود خان کے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے اور جان بچانے کے مشورے کو رد کر دیا اور 500 سپاہیوں کے ساتھ جنگ میں کود پڑے جہاں سب کے سب مارے گئے اور اس طرح ایک ہی دن میں بابر کو وہ عظیم فتح نصیب ہوئی جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔
بابر نے اگرچہ اس جنگ سے دہلی کی حکومت تو حاصل کر لی لیکن اس کی سلطنت کو استحکام راجپوت راجہ رانا سانگا کے خلاف جنگ جیت کر حاصل ہوا۔
بابر کے مطابق یہ جنگ ان کی سخت ترین جنگ تھی جس میں انھیں ایک ایسے جنگجو کا سامنا تھا جس نے اس سے قبل اپنی زندگی میں کوئی شکست نہیں دیکھی تھی۔
اگرچہ بابر کی فوج میں تعداد کے لحاظ سے اضافہ ہو گیا تھا لیکن اس کے زیادہ تر اصل ازبک اور مغل جنگجو پانی پت کی جنگ کے بعد وطن واپس لوٹ گئے تھے کیونکہ ان سب کو ہندوستان کی ہوا راس نہیں آ رہی تھی اور وہ یہاں کی گرمی سے شدید پریشان تھے۔
تاہم رانا سانگا کے حملے کی خبر سن کر بابر کے حمایتی رفتہ رفتہ جدا ہونے لگے اور اس کی فوج نصف رہ گئی لیکن انھوں نے سیکری کے مقام پر تالاب کے ساتھ اپنی فوج کی صف بندی اسی طرز پر شروع کی جیسی پانی پت میں کی تھی۔ یہ جنگ سنہ 1527 میں کھانوا کے مقام پر لڑی گئی لیکن اس میں شمشیر سے زیادہ بابر کی تقریر نے کام کیا۔
انھوں نے اس بابت اپنے ڈائری (جو تزک بابری کے نام سے شائع ہو چکی ہے) میں تفصیل سے لکھا ہے۔ جب انھیں یہ اندیشہ ہوا کہ فوج کا حوصلہ پست ہے کیونکہ سامنے ایک ناقابل شکست فوج ہے تو بابر نے ایک جوشیلی تقریر کی جس کے نتیجے میں انھوں نے آخری دم تک لڑنے کی قسم کھائی اور تیسرے دن غروب آفتاب کے وقت بابر کو ایسی فتح نصیب ہوئی جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔
انہوں نے لکھا ’فوج میں دشمن کی زیادہ تعداد کی وجہ سے بددلی پھیل گئی تھی اس لیے میں نے پوری فوج کو ایک جگہ جمع کرکے تقریر کی۔‘
’جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے مرنا ہے۔ زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے اس لیے موت سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ مجھ سے تم لوگ اللہ کے نام پر قسم کھاؤ کہ موت کو سامنے دیکھ کر منہ نہیں موڑو گے اور جب تک جان باقی ہے لڑائی جاری رکھو گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میری تقریر کا بہت اثر ہوا۔ اس سے فوج میں جوش بھر گیا، لڑائی جم کر ہوئی اور آخر میری فتح ہوئی۔ یہ فتح 1527 میں ہوئی۔‘
بابر کے حالات زندگی
ظہیر الدین بابر کی پیدائش 14 فروری 1483 اندجان فرغنہ میں ہوئی۔ ان کے والد شیخ مرزا وادی فرغنہ کے حاکم اور چغتائی ترک اور تیمور کے خاندان سے تھے اور والدہ چنگیز خان کی نسل سے تھیں۔ ان کی والدہ پیار سے انہیں ’بابر‘ کہا کرتی تھیں جس کا مطلب شیر ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پروفیسر نشاط منظر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگرچہ ان کے جد امجد چنگیز خان اور تیمور لنگ دونوں پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انھیں اس کا بخوبی احساس تھا کہ بغیر تعلیم کے جہاں بانی مشکل امر ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم دلوائی۔ بابر کی تعلیم بھی اسلامی روایت کے مطابق چار سال کی عمر میں شروع کی گئی۔
بابر نامہ جو بابر کی تحریر کردہ کتاب ہے اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی پہلی شادی ان کی چچا زاد عائشہ سے ہوئی تھی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو 40 دن بھی زندہ نہیں رہ سکی لیکن بابر کو ان کی اپنی بیگم سے کوئی الفت نہ تھی۔ بابر کو سب سے محبوب ماہم بيگم تھیں جن کے ہاں ہمایوں پیدا ہوئے اور بعد میں انھوں نے سلطنت سنبھالی جبکہ گلبدن بیگم اور ہندال و عسکری اور کامران دوسری بیویوں سے پیدا ہوئے تھے۔
بابر ابھی 11 سال ہی کے تھے کہ ان کے والد ایک حادثے کا شکار ہو کر انتقال کر گئے، اس طرح ان کو کم عمری میں ہی سلطنت سنبھالنا پڑی۔ اس کے بعد وہ سمرقند فتح کرنا چاہتے تھے لیکن اپنوں کی دشمنی کی وجہ سے انھیں فرغنہ کی ریاست سے بھی ہاتھ دھونا پڑا جو ان کو وراثت میں ملی تھی۔
بابر نامہ میں انھوں نے اپنی بارہا ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ’جتنے دن میں تاشقند میں رہا اتنے دن میں نے بے حد تنگی اور مصیبت اٹھائی۔ نہ ملک قبضے میں تھا اور نہ اس کے ملنے کی امید تھی۔ نوکر سب چھوڑ کر چلے گئے جو لوگ ساتھ تھے وہ مفلسی کے وجہ سے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔‘
مگر بابرنے ایک جنگجو کی حیثیت سے کبھی ہار نہیں مانی اور طویل جدوجہد کے بعد 1504 میں بلخ اور کابل فتح کیا اور 1511 میں قندھار کا علاقہ فتح کیا۔
کابل قندھار غزنی اور دیگر علاقوں کی فتوحات کے بعد بابرنے ہندوستان کا رخ کیا۔ پہلے انھوں نے یہاں چار چھوٹے چھوٹے حملے کیے جن کا مقصد وہاں کے حالات جاننا تھا۔ اس وقت وہاں ابراہیم لودھی کی حکومت تھی اسی جنگ کے بعد مغل سلطنت کا آغاز ہوا۔
بابر کی ذہانت اور تعلیم کے حوالے سے مشہور مورخ مارگریٹ میک ملن اپنی ایک سیریز ’تاریخ کی گمشدہ شخصیات کی تلاش‘ میں لکھتی ہیں کہ ’بابر دو عظیم فاتحوں چنگیز خان اور تیمور کی اولاد تھے۔ بابر واقعی ایک بہت ہی دلچسپ شخصیت تھے اور میرے خیال سے وہ اب بھی دلچسپ ہیں، ان کی فتوحات اور دیگر چیزوں کے علاوہ ان میں جو منفرد چیز تھی وہ یہ کہ انھوں نے ایک ڈائری ( بابر نامہ ) لکھی تھی۔‘
مزید آگے کہتی ہیں کہ ’ڈائری یعنی بابر نامہ میں انھوں نے اپنی زندگی کے بیشتر حوادث کا ذکر کیا ہے جو نایاب بات ہے کیونکہ اس زمانے میں حکمران اکثر پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے۔‘
’میں پچھلی دو صدیوں سے پہلے کسی اور طاقتور حکمران یا بادشاہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی جس نے اپنی سوانح لکھی ہو۔‘
بہرحال بابر ہمایوں کی بیماری پر بہت افسردہ خاطر ہوئے۔ ان کی بیٹی گلبدن بیگم بانو کی تصنیف ’ہمایوں نامہ‘ کے مطابق انھوں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے اور ولی عہد ہمایوں کے بدلے اپنی جان کا سودا کر لیا۔ چنانچہ ہمایوں صحت یاب ہونے لگے اور بابر بستر سے لگنے لگے۔
کوئی 40 دن کے بعد بابر نے 26 دسمبر 1530 کو اس دنیا کو الوداع کہا جو تاریخ عالم کے عظیم ترین جنگجوؤں میں سے ایک کا الوداع تھا۔