وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق اسرائیلی کابینہ نے 10 اپریل سے داخلی انٹیلی جنس سروس شِن بیت کے سربراہ کو برطرف کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ فیصلہ اس اقدام کے خلاف تین دن تک جاری رہنے والے احتجاج کے بعد کیا گیا۔
رواں ہفتے نیتن یاہو نے کہا تھا کہ انہیں رونین بار پر اعتماد نہیں رہا، جو 2021 سے شِن بیت کی قیادت کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ کی جنگ بندی کیوں ختم کی؟Node ID: 887365
رونین بار کابینہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، لیکن وزرا کو بھیجے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ ان کی برطرفی قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں اور بے بنیاد الزامات کی وجہ سے ان کو عہدے سے ہٹایا جا رہا ہے۔
جمعرات کی شب تل ابیب میں احتجاج کے دوران پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا اور متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا۔
گزشتہ تین دنوں میں رونین بار کو برطرف کرنے کے اقدام کے خلاف احتجاج ہوا، اس دوران غزہ میں لڑائی دوبارہ شروع کرنے کے خلاف بھی تل ابیب میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ غزہ میں اب تک 59 اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں۔
59 برس کے رینات ہداشی نے کہا کہ ’ہم بہت زیادہ پریشان ہیں، ہمارا ملک مطلق العنان ریاست بن رہا ہے۔ وہ ہمارے یرغمالیوں کی پرواہ نہیں کر رہے ہیں اور وہ اس ملک کے لیے تمام اہم چیزوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔‘
برطرفی کا یہ فیصلہ رونین بار اور نیتن یاہو کے درمیان کرپشن کی تحقیقات پر کئی ماہ کی کشیدگی کے بعد آیا۔ تحقیقات میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ نیتن یاہو کے دفتر کے کچھ معاونین کو رشوت دی گئی۔

نیتن یاہو نے اس الزام کو سیاسی طور پر ان کو عہدے سے ہٹانے کی کوشش قرار دیا تھا، لیکن ناقدین نے ان پر اسرائیل میں جمہوریت کو کمزور کرنے کا الزام لگایا ہے، کیونکہ وہ نین بار کو ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔
نین بار پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ فلسطینی شدت پسند تنظیم حماس کا حملہ روکنے اور انٹیلی جنس کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے جلد ہی استعفیٰ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
شدید اختلافات
جمعرات کے مناظر نے ان اختلافات کو واضح کیا جو 2022 کے آخر میں نیتن یاہو کے اقتدار میں آنے کے بعد شدت اختیار کر گئے تھے۔
غزہ کی جنگ سے قبل بھی، سینکڑوں اسرائیلی مظاہرین باقاعدہ احتجاج میں شریک ہوئے، جس کا مقصد عدلیہ کی طاقت کو محدود کرنا تھا، اور جسے ناقدین نے اسرائیلی جمہوریت پر حملہ قرار دیا تھا۔
جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ عدلیہ کی حد سے زیادہ مداخلت کو روکنے کے لیے ضروری تھا۔
جمعرات کو یائر گولان جو فوج میں ڈپٹی چیف آف سٹاف رہ چکے ہیں اور اب اپوزیشن ڈیموکریٹس پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں، ایک جھڑپ کے دوران زمین پر گرا دیے گئے۔

حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
سابق وزیر دفاع بینی گانٹز نے کہا ہے کہ ’یہ جھڑپیں، ایک انتہا پسند حکومت جس نے اپنی گرفت کھو دی ہے، کی وجہ سے ہونے والی تقسیم کا براہ راست نتیجہ ہے۔‘
تل ابیب میں مظاہرین نے کِریا فوجی ہیڈکوارٹر کمپلیکس کے باہر احتجاج کیا، جب وزرا نے نین بار کی برطرفی کی باضابطہ منظوری دینے کے لیے ملاقات کی۔
جنگ کے آغاز کے بعد سات اکتوبر کے حملے میں حماس کی جانب سے یرغمال افراد کے اہل خانہ اور حامیوں کی طرف سے باقاعدہ احتجاج ہو رہے ہیں۔