Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حماس کے سینیئر عہدے دار کا قتل، لبنان میں اسرائیلی کارروائیوں کا عکاس

1978 اور 1982 میں اسرائیلی فوج لبنان کے ایک گاؤں میں کارروائی کے دوران۔ (فوٹو: اے ایف پی)
رواں ہفتے بیروت کے جنوبی مضافات میں حماس کے سینیئر عہدیدار صالح العاروری پر اسرائیل کا مشتبہ ٹارگٹڈ حملہ علاقائی تنازع میں ایک غیر متوقع اضافہ تھا، خاص طور پر اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ یہ واقعہ حزب اللہ کے مضبوط گڑھ میں پیش آیا ہے۔
دنیا بھر میں اسرائیل کے آپریشنز اور لوگوں کے قتل کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس کا انٹیلیجنس یونٹ موساد نازیوں کے تعاقب میں رہا اور حال ہی میں ان کے خلاف بھی کارروائیاں کیں جو اسرائیل کی سکیورٹی کے لیے خطرہ تھے۔
حالیہ برسوں میں ایسے ہی لاتعداد آپریشنز لبنان، متحدہ عرب امارات، ایران اور دیگر ملکوں میں بھی کیے گئے جن میں حماس، حزب اللہ اور ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو ہدف کیا گیا اور ان کے اراکین کو مارا گیا۔
منگل کی رات صالح العاروری اور ان کے ساتھیوں پر حملے کے بعد اب اس قسم کے حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی حملے جاری ہیں۔
بیروت میں امریکن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر مکرم رباح کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ لبنان ہمیشہ سے ایک میدان رہا ہے جو تنازع میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔
’اس لیے یہ سمجھنا ہوگا کہ 1975 سے لے کر 1982 تک۔۔۔ اصل حملے تک، اسرائیل کے مکمل حملے تک۔۔۔ اسرائیلی لبنان میں ممکنہ محدود دراندازی کے بارے میں سوچ رہے تھے لیکن یہ ایک مکمل فوجی حملہ بن کر ختم ہوا۔‘
لبنان میں 1975 کی خانہ جنگی اور ملک کے جنوب میں اسرائیلی حملے سے قبل بھی، اسرائیل نے اپنے شمالی پڑوسی کی سرحدوں کے اندر کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ اس طرح کا سب سے بڑا واقعہ 1968 میں پیش آیا جب فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن نے ایتھنز ایئرپورٹ پر اسرائیلی طیارے پر حملہ کیا۔ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) لبنان کے باہر کام کر رہی تھی۔

دو اگست 1982 کو مغربی لبنان پر اسرائیل نے بمباری کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے جواب میں آٹھ اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے بیروت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ کیا اور عرب ایئر لائنز کے 13 سویلین طیارے تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ رن وے اور ہینگرز کو بھی نقصان پہنچایا۔
1967 کی جنگ کے بعد پی ایل او نے لبنان سے اسرائیل پر حملے شروع کر دیے تھے جس کے نتیجے میں سرحد اور اس کے قریبی دیہات میں جوابی کارروائیاں کی گئیں۔
1975 میں لبنان کی 15 سالہ خانہ جنگی کا آغاز ہوا جس کے باعث اس کی سرزمین اسرائیل پر حملوں کے لیے پی ایل او نے بطور لانچ پیڈ استعمال کی۔ خانہ جنگی کے ابتدائی تین برسوں میں پی ایل او نے کوسٹل ہائی وے پر ایک اسرائیلی بس ہائی جیک کی جس میں 38 مسافر ہلاک ہوئے۔
جوابی کارروائی میں اسرائیل نے 14 مارچ 1978 کو آپریشن لیطانی کا آغاز کیا اور جنوبی لبنان پر حملہ کیا۔ یہ حملہ لبنان میں اقوام متحدہ کے عبوری فورس کے قیام کا سبب بنا۔ یہ امن قائم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا مشن تھا جو جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کے بعد قائم ہوا۔
برطانیہ میں اسرائیلی سفیر شلومو ارگوو کے قتل کے بعد 1982 میں اسرائیلی افواج کو جنوبی لبنان واپس بھیجا گیا۔
یکم ستمبر کو جنوبی بیروت سے  پی ایل او کے ہیڈ کوارٹر کے ختم ہونے کے بعد اسرائیلی فوج نے اپنے آپریشن کو تین مہینوں تک بڑھایا جب تک یہ دارالحکومت بیروت نہیں پہنچی۔
اسی دوران اسرائیلی فوج نے ’آپریشن پیس فار گالیلی‘ کا آغاز کیا۔ لبنان کی خانہ جنگی میں یہ بدترین قتل عام تھا۔ اسرائیلی فوج نے صبرا اور شتیلا کے پناہ گزین کیمپوں کا محاصرہ کیا، اسرائیلی فوج کے تعاون سے لبنانی فورسز کی ملیشیا نے کیمپوں پر حملہ کیا تھا جس میں تقریباً 3500 سو فلسطینی اور لبنانی شہری ہلاک ہوئے تھے۔

دو جنوری کو ڈرون حملے میں حماس کے سینیئر عہدے دار صالح العاروری بھی مارے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا کہ آیا موجودہ تنازع کی وجہ سے صبرا اور شتیلا جیسا واقعہ دوبارہ رونما ہو گا۔
تاریخ کے پروفیسر مکرم رباح کے مطابق کئی وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا ہے مشکل ہے کہ صبرا اور شتیلا جیسا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سب سے پہلے لبنانی فورسز یا لبنانی فورسز کے ایک حصے کا اس میں حصہ لینا جس نے صبرا اور شتیلا میں اہم کردار ادا کیا اور سب سے زیادہ اہم اُس وقت سابق اسرائیلی وزیراعظم ایئریل شیرون تھے۔‘
’ابھی ان جیسا کوئی نہیں، کم از کم جرنیلوں میں سے جن کے پاس اسرائیل کا کنٹرول ہے۔۔۔ ان میں شیرون کے مجرمانہ رجحان کی کمی ہے۔‘
لبنان میں زیادہ تر اسرائیلی آپریشن فلسطینی تنظیموں کے خاتمے کے مقصد سے کیے گئے ہیں، ایسے بھی متعدد آپریشن ہوئے جن کا مقصد حزب اللہ اور لبنانی تنظیموں کو تباہ کرنا تھا۔
حزب اللہ کے جنگجوؤں کی جانب سے پانچ اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کے اہلکاروں کو ہلاک کرنے اور اسرائیل میں 40 کاٹیوشا راکٹ داغے جانے کے بعد اسرائیل نے ’آپریشن اکاؤنٹیبیلٹی‘ کا آغاز کیا تھا۔ یہ ’سیون ڈے وار‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس تبادلے میں لبنانی شہریوں کو نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اُس وقت اسرائیلی حملوں میں کم از کم 118 افراد ہلاک اور 500 زخمی ہوئے تھے۔
لبنان پر حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کے مہلک ترین حملوں میں ایک ’آپریشن گریپس آف ریتھ‘ بھی تھا جو اپریل 1996 میں ہوا۔ اسرائیلی فوج نے لبنان پر 600 فضائی حملے اور تقریباً 2500 گولے فائر کیے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 1996 کے آپریشن کے دوران آئی ڈی ایف نے ’غیرقانونی حملے‘ کیے۔ یہ حملے ایمبولینس جس میں عام شہری سوار تھے، النبطیہ میں ایک مکان اور اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ پر کیے گئے۔

اسی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حزب اللہ نے غیرقانونی طور پر شمالی اسرائیل کے علاقوں پر راکٹ داغے جس میں کئی شہری زخمی ہوئے تھے۔
2006 میں اسرائیلی سرحدی اہلکاروں پر حملے کے بعد اسرائیل نے اپنے دفاع کے لیے حزب اللہ کے خلاف آپریشن کیا۔ حزب اللہ نے تین آئی ڈی ایف سپاہیوں کو ہلاک کیا تھا اور دو کو یرغمال بنایا تھا۔
حزب اللہ نے مغویوں کے بدلے لبنانی اور فلسطینی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے لبنان کی حکومت پر حزب اللہ کے حملے کا الزام لگایا تھا۔
جولائی 2006 میں 34 دن کی یہ جنگ ختم ہوئی۔ 11 اگست کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد 1701 کی منظوری کے بعد تین دن کی جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔
اس جنگ میں کم از کم 1191 لبنانی شہری ہلاک، 2209 زخمی اور نو لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے تھے۔
اس کے بعد سے منگل کی رات تک بیروت میں کوئی اسرائیلی آپریشن یا ٹارگٹڈ حملہ نہیں ہوا تھا۔

1982 میں پی ایل او کے چیئرمین لبنانی وزیراعظم کے ساتھ۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بہت سے مبصرین کو خدشہ ہے کہ موجودہ کشیدگی آگے بڑھ سکتی ہے جس کی وجہ سے غزہ کا تنازع علاقائی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
بیروت میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر رباح کا کہنا ہے کہ سرجیکل حملے زیادہ طاقتور اور اہم ہیں۔ اب تک العاروری کو نشانہ بنانے کے ساتھ اور اس حقیقت کے باوجود کہ یہ رہائشی علاقے میں ہوا تھا کسی شہری کی جان کو نقصان نہیں پہنچا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں اگر ان آپریشن کو دیکھا جائے تو یہ زیادہ خطرناک ہیں۔

شیئر: