اسرائیلی ڈرون حملے میں مارے جانے والے حماس کے رہنما صالح العاروری کون تھے؟
اکتوبر میں صالح العاروری کے خاندانی گھر کو اسرائیلی فوج نے مسمار کر دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
حماس کے سب سے سینیئر عہدیداروں میں سے ایک صالح العاروری منگل کی رات اس وقت مارے گئے جب ایک اسرائیلی ڈرون نے حزب اللہ کے زیر کنٹرول بیروت کے جنوبی مضافات میں عسکریت پسند گروپ کے دفتر کو نشانہ بنایا۔
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے نائب سربراہ صالح العاروری اسرائیل کی ہِٹ لسٹ میں نمایاں تھے اور اب تک مارے جانے والے اس گروپ کے سب سے اہم رکن تھے۔
2017 سے اسماعیل ہنیہ کے نائب ہونے کے ساتھ ساتھ العاروری حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کے بانی کمانڈر تھے۔
وہ 1987 سے حماس کے لیے مبینہ طور پر مالی معاونت کرنے اور ہتھیاروں کی منتقلی میں سہولت کاری کے لیے امریکی ٹریژری کی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل تھے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ’ریوارڈ فار جسٹس پروگرام‘ نے ان کی گرفتاری میں معاونت فراہم کرنے پر 50 لاکھ ڈالر انعام کی پیشکش کی تھی۔
صالح العاروری کی موت ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی برسی سے ایک دن قبل ہوئی، جو 3 جنوری 2020 کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
وہ 2010 سے حماس کے پولٹیکل بیورو کے رکن تھے، لیکن اگست 2014 میں اس وقت نمایاں ہوئے جب انہوں نے ترکیہ میں ایک کانفرنس میں کہا کہ عسکریت پسند گروپ مغربی کنارے کی ایک بستی سے تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کا ذمہ دار ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ حماس کے جنگجوؤں کی فنڈنگ اور تربیت میں ملوث تھے جس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 12 سو افراد ہلاک ہوئے اور 240 کو یرغمال بنایا گیا۔
اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے خلاف فوجی مہم شروع کی جس میں اب تک کم از کم 22 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اکتوبر میں رملہ کے قریب مغربی کنارے کے قصبے ارورہ میں العاروری کے خاندانی گھر کو اسرائیلی فوج نے مسمار کر دیا تھا۔ مسماری کے حکم نامے پر اسرائیل ڈیفنس فورس سینٹرل کمانڈ کے سربراہ یہودا فاکس نے دستخط کیے تھے۔