Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ ہے کیا؟

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں جن میں اپیل کی گنجائش نہیں ہوتی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
رواں ہفتے عالمی عدالتِ انصاف(آئی سی جے) میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نسل کشی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کا آغاز ہو گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کے خلاف یہ مقدمہ جنوبی افریقہ نے دائر کیا ہے اور غزہ میں اسرائیلی فورسز کی کارروائیاں فوری طور پر روکنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
عالمی عدالت انصاف کیا ہے؟
عالمی عدالت انصاف یا ورلڈ کورٹ اقوام متحدہ کی سب سے اعلیٰ قانونی باڈی ہے جو 1945 میں قائم ہوئی۔ یہ عدالت ریاستوں کے مابین تنازعات کو ختم کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔
یہ ہیگ ہی میں موجود انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے مختلف عدالت ہے۔ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ جنگی جرائم سے متعلق شکایات کی سماعت کرتی ہے۔
عالمی عدالت انصاف میں 15 ججوں کا پینل ہوتا ہے جس میں فریق ریاستوں کی جانب سے ایک ایک اضافی جج بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
یہ عدالت سرحدی تنازعات کےعلاوہ مختلف ممالک کی جانب سے دوسرے ممالک کے خلاف اقوام متحدہ کے معاہدوں خلاف ورزی کی شکایات پر سماعت کرتی ہے۔
جنوبی افریقہ اور اسرائیل دونوں نے اقوام متحدہ کے ’جینوسائیڈ کنونشن 1948‘  پر دستخط کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے یہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات کا ایک مقدمہ درج کرایا گیا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

وہ تمام ممالک جنہوں نے جنیوسائیڈ کنونشن پر دستخظ کر رکھے ہیں وہ نہ صرف نسل کشی کے اقدامات نہ کرنے کے پابند ہیں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے جرائم کو روکیں۔
اس معاہدے میں نسل کشی کی تعریف ایسے اقدام کے طور پر کی گئی ہے کہ ’کسی بھی قوم، نسل، زبان یا مذہب وابستہ افراد کو جزوی یا کلی طور پر تباہ کرنے کا اقدام کیا جائے۔‘
جنوبی افریقہ کے مقدمے میں کیا ہے؟
جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات کا ایک مقدمہ درج کرایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو قتل مارنا ان کے لیے سنگین ذہنی و جسمانی نقصانات کا سبب بن رہا ہے اور ’یہ اقدام ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جو فلسطینیوں کی تباہی کے مترادف‘ ہیں۔ اسرائیل ان (فسلطینیوں) کی نسل کشی کر رہا ہے۔
جنوبی افریقہ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ’ایسے اقدامات سامنے آئے ہیں جنہیں اسرائیل سے منسوب کیا جا سکتا ہے جو کہ نسل کشی کو روکنے میں ناکام ہوا ہے اور وہ جینوسائیڈ کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔‘
اسرائیل کا ردعمل کیا ہے؟
اسرائیل نے نسل کشی سے متعلق ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ جنوبی افریقہ کے ایسے الزامات یہودیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اپنا موقف بیان کرنے کے لیے اگلے ہفتے عدالت میں پیش ہوں گے۔

اسرائیل کے خلاف فیصلہ اس کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سماعت میں کیا امکانات ہیں؟
اس مقدمے کی سماعت 11 اور 12 جنوری کو ہو گی۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے ہنگامی اقدامات کی درخواست ایک ایسے معاملے میں پہلا قدم ہے جس کی تکمیل میں کئی برس لگیں گے۔ عارضی اقدامات کا مطلب ایک قسم کی روک تھام کا حکم ہے تاکہ کسی تنازع کو مزید بگاڑ سے روکا جا سکے۔
آئی سی جے کے جج اکثر ایسے اقدامات کی منظوری دیتے ہیں جن میں عام طور پر ریاست کو کسی بھی ایسی کارروائی سے باز رہنے کو کہا جاتا ہے جو قانونی تنازع کو بڑھا سکتی ہے۔
جنوبی افریقہ نے عدالت سے کہا ہے کہ اسرائیل کو حکم دیا جائے کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں روک دے، نسل کشی کی کسی بھی کارروائی کو روکے یا نسل کشی کو روکنے کے لیے معقول اقدامات کرے اور ایسے اقدامات کے بارے میں آئی سی جے کو باقاعدہ رپورٹ بھی دے۔
آئی سی جے کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں جن میں اپیل کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن اس عدالت کے پاس ان فیصلوں کو نافذ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ 
اسرائیل کے خلاف فیصلہ اس کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور ایک قانونی نظیر قائم کر سکتا ہے۔
حتمی فیصلہ کب تک ہو گا؟
اگر عدالت کو اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ یہ معاملہ بادی النظر میں اس کے دائرہ اختیار میں ہے تو ہی یہ مقدمہ آگے بڑھ سکے گا۔
اس کے بعد اسرائیل کو یہ دلیل دینے کا ایک اور موقع ملے گا کہ جنوبی افریقہ کے دعوے اور اعتراض دائر کرنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔
اگر عدالت اسرائیل کے اعتراض کو مسترد کر دیتی ہے تو جج مزید سماعتوں میں مقدمے کو دیکھ سکتے ہیں۔
عام طور پر ابتدائی دعوے اور اس کی تفصیلات پر کیس کی اصل سماعت کے درمیان کئی برس گزر جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔

شیئر: