Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی نژاد فلسطینی ڈاکٹر کی غزہ سے واپسی کے بعد ’انصاف‘ کے لیے جنگ

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 22 ہزار 835 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
اسرائیل-حماس تنازع کے دوران غزہ کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ایک برطانوی نژاد فلسطینی ڈاکٹر کو امید ہے کہ انہوں نے جو گواہی برطانوی پولیس کو دی ہے وہ جنگی جرائم کے لیے قانونی کارروائی کا باعث بنے گی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غسان ابو ستة ایک پلاسٹک سرجن ہیں اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر 43 دن غزہ کی پٹی میں خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے شمال میں موجود الاهلی اور شفا نامی ہسپتالوں میں کام کیا۔
54 سالہ سرجن دونوں اطراف سے مبینہ جنگی جرائم کی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی تحقیقات کے لیے جمع کیے جانے والے شواہد کے حصے کے طور پر غزہ میں زخموں اور ہتھیاروں کی نوعیت کے حوالے سے پہلے ہی برطانوی پولیس کو بیان حلفی جمع کرا چکے ہیں۔
غسان ابو ستة رواں ہفتے ہیگ بھی جائیں گے جہاں وہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے تفتیش کاروں سے ملیں گے۔
انہوں نے لندن میں اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ حالیہ جنگ کی شدت غزہ (سابقہ جنگوں)، عراق، شام، یمن اور جنوبی لبنان سمیت دیگر متعدد تنازعات جہاں انہوں نے کام کیا، میں سب سے زیادہ تھی۔
’یہ سیلاب اور سونامی میں فرق ہے، شدت بالکل مخلتف ہے۔‘
برطانوی نژاد فلسطینی ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ’صرف زخمیوں کی تعداد، تباہی کا حجم، ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد، بمباری کی شدت، یہ حقیقت ہے کہ جنگ شروع ہونے کے چند ہی دنوں میں غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر مریضوں کے بوجھ تل دب گیا تھا۔‘
غزہ میں جنگ کا آغاز گذشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر غیرمعمولی حملے کے بعد ہوا تھا۔ اسرائیلی اعداو شمار کے مطابق اس حملے میں 1140 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت شہریوں کی تھی۔
جواب میں اسرائیل کی بے رحمانہ فضائی بمباری اور زمینی حملوں کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 22 ہزار 835 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
غسان ابو ستة کویت میں پیدا ہوئے تھے اور 1980 کی دہائی کے اواخر سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ وہ نو اکتوبر کو ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی ٹیم کے ہمراہ مصر کے راستے غزہ پہنچے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شروع سے ہی ہماری استعداد زخمیوں کے لحاظ سے کم تھی۔ تیزی سے ہمیں بہت مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے تھے کہ کس کا علاج کرنا ہے۔‘

شیئر: