Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ سے سری لنکا پہنچنے والی فاطمہ فلسطینی شوہر کی منتظر

بچوں کو سکول بھیجنے کا شوہر سے کیا گیا وعدہ پورا کر سکتی ہوں۔ فوٹو عرب نیوز
سری لنکن خاتون فاطمہ رقزہ نے نومبر میں غزہ چھوڑا تو ان کا مقصد اپنے بچوں کو محفوظ مقام پر لانا اور اپنے فلسطینی شوہر کے وطن واپس آنے کا انتظار کرنا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق 14 سال قبل فاطمہ نے فلسطینی شہری عبداللطیف سے شادی کی تھی اور اب وہ صرف دعا کر سکتی ہیں کہ اپنے بچوں کے باپ کو دوبارہ دیکھ سکیں۔
فاطمہ نے بتایا ہے کہ فلسطینی شہری عبداللطیف کولمبو میں ان سے انگریزی سیکھنے آئے، جہاں ان دونوں کی شادی ہو گئی۔
آٹھ سال کولمبو میں گزارنے کے  بعد ہمارے کنبے نے غزہ کا رخ کیا جہاں عبدالطیف اپنے خاندان سے ملنا چاہتے تھے۔
رقزی  کے شوہر نے غزہ میں بسنے کی نیت سے پھلوں کی دکان کھولنے کا فیصلہ کیا اور زندگی اچھی گزر رہی تھی۔
پھر اکتوبر میں غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں نے انہیں تحفظ اور امن کے احساس سے محروم کر دیا۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں نے ہمارے لیے فلسطین کو ’جہنم‘ بنا دیا اور موجودہ صورتحال میں ہم نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔
 جنگ زدہ علاقے میں ہم ہر وقت ایک ہنگامی بیگ تیار رکھتے، جس میں دو جوڑے کپڑے اور نماز کی چٹائی تھی۔ سوتے وقت بھی ہم اس بات کا خیال رکھتے کہ یہاں سے کسی بھی وقت نکلنا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں نے تحفظ کے احساس سے محروم کردیا۔ فوٹو اے ایف پی

ایسے ہی حالات میں ایک ماہ گزارنے کے بعد فاطمہ اپنے چار بچوں سمیت ایسے افراد میں شامل تھی جن کے پاس غیرملکی پاسپورٹ موجود تھے اور انہیں غزہ سے نکالا گیا تھا۔
 انہوں نے بتایا کہ میرے شوہر کو اپنی بیمار ماں اور معذور بہن کے ساتھ  غزہ میں ہی رہنا پڑا۔
عبداللطیف نے اپنے خاندان کے  50 سے زائد افراد کو غزہ اسرائیل تنازع میں کھو دیا ہے اور اب بھی ہمیں ہر لمحے یہ فکر رہتی ہے کہ آئندہ کیا ہو گا۔
میرے شوہر نے ہمیں غزہ سے رفح بارڈر پر جانے اور سری لنکن سفارت خانے سے رابطہ کرنے کو کہا جہاں سفارتخانے نے ہماری مدد کی اور میں اب کولمبو میں اپنی بہن کے پاس ہوں۔

اسرائیل کی بمباری سے70 فیصد گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

فاطمہ کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں میرے بچے کم از کم آرام سے سو سکتے ہیں اور میں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کا شوہر سے کیا گیا وعدہ پورا کر سکتی ہوں۔
فاطمہ رقزہ نے بتایا کہ میں ہر وقت اپنے شوہر کے بارے میں سوچتی ہوں اور تمام فلسطینیوں کے عافیت کے لیے دعا گو ہوں۔
واضح رہے کہ گذشتہ تین ماہ سے غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری سے نہ صرف علاقے کے 70 فیصد گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں بلکہ  وہاں موجود  بیشتر تعلیمی اور صحت مراکز کے علاوہ پانی اور بجلی کا بنیادی ڈھانچہ بھی تباہ ہو گیا ہے۔

شیئر: