فلسطینی ورثے اور تاریخی شناخت کے تحفظ کے لیے ڈیجیٹل آرکائیوز
فلسطینی ورثے اور تاریخی شناخت کے تحفظ کے لیے ڈیجیٹل آرکائیوز
جمعرات 11 جنوری 2024 10:51
اسرائیلی بمباری سے غزہ سٹی کی سب سے بڑی پبلک لائبریری تباہ ہو گئی ہے۔ فوٹو عرب نیوز
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی شدید بمباری کے نتیجے میں فلسطینی ورثے اور شناخت کا تحفظ خطرے میں پڑ گیا ہے اور قیمتی ریکارڈ اور آرکائیوز کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق فلسطینی سکالرز نے خبردار کیا ہے کہ اس تباہی کے باعث ورثے اور تاریخی دستاویز کو پہنچنے والے نقصان کو کسی بھی حالت میں ڈیجیٹل طریقے سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
تاریخی دستاویز کو ڈیجیٹل طریقے سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ فوٹو عرب نیوز
فلسطین کی تاریخ سے متعلق مشرق وسطیٰ سے ملنے والے مخطوطات و دیگر مختلف اشیاء اور دستاویزات کو محفوظ رکھنے کے لیے 2020 میں شروع کیے گئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم’ Palestine Nexus‘ نے دستاویز محفوظ کرنے کی اپنی کوششوں کو دوگنا کر دیا ہے۔
فلسطین الرابطہ (Palestine Nexus) کے بانی اور تاریخ دان امریکی شہری زچری فوسٹر نے بتایا ہے کہ ’فلسطین کی تاریخی تحریریں جنہیں مٹایا جا رہا ہے انہیں محفوظ رکھنے کی ذمہ داری محسوس کی اور https://palestinenexus.com/ پر کام کرنا شروع کیا۔
یہودی ورثے کے امریکی شہری زچری فوسٹر نے بتایا کہ مجھے فلسطینی تاریخ میں دلچسپی اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ مجھے بتایا جا رہا تھا کہ فلسطینی عوام جیسی کوئی چیز نہیں اور میں جاننا چاہتا تھا کہ میں نے جو کہانیاں سنی ہیں وہ سچ ہیں یا نہیں۔
زچری فوسٹر نے بتایا کہ میں فلسطینی یادداشت کو تاریخ میں محفوظ رکھنے پر یقین رکھتا ہوں اور مجھے اس میں کام کرنے پر فخر ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ثقافتی اہمیت کے مقامات کو نقصان پہنچایا گیا۔ فوٹو عرب نیوز
غزہ میں انسانی تباہی کے درمیان جس طرح فلسطینی تاریخ اور شناخت کے اہم عناصر کو مٹایا جا رہا اور ثقافتی، تعلیمی ورثے سے متعلقہ دستاویز اور موجود تاریخی نوادرات کو پہنچنے والے نقصان کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نومبر کے آخر میں غزہ کے ایک آرکائیوز مرکز کو تباہ کر دیا گیا جس میں 150 سال سے زیادہ قدیم اشیاء اور ہزاروں تاریخی دستاویزات موجود تھیں۔
ترکی کی انادولو نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے بلدیہ غزہ کے سربراہ یحییٰ السراج نے مرکزی آرکائیوز (محافظ خانے) کی تباہی کو ’ فلسطینی یادداشت کے ایک بڑے اثاثے کو مٹانے کی دانستہ کوشش‘ قرار دیا ہے۔
غزہ کے ایک آرکائیوز مرکز میں ہزاروں تاریخی دستاویزات تھیں۔ فوٹو عرب نیوز
حالیہ ہفتوں میں ثقافتی اہمیت کے جو دیگر مقامات کو نقصان پہنچا یا تباہ کیا گیا ان میں غزہ کی بندرگاہ میں ماوی مرمرہ شہداء کی یادگار، مغربی کنارے کے جنین مہاجر کیمپ میں آنجہانی صحافی شیرین ابو اکلیح کی یادگار اور طلکرم میں سابق صدر یاسر عرفات کی یادگار شامل ہیں۔
اسرائیل کی بمباری کے باعث غزہ کی سب سے بڑی پبلک لائبریری بھی تباہ ہو گئی ہے، جس کے بعد بلدیہ حکام نے یونیسکو سے مطالبہ کیا کہ ہمارے ثقافتی مراکز کی حفاظت کی جائے اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت محفوظ اشیاء کو ہدف بنانے کی مذمت کی جائے۔
لفظ فلسطین کو جان بوجھ کر شعور سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فوٹو عرب نیوز
دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ شہری انفراسٹرکچر یا ثقافتی، مذہبی یا تاریخی اہمیت کے مقامات کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا بلکہ ہماری مسلح افواج صرف حماس کے جنگجوؤں، کمانڈروں اور ان کے ہتھیاروں کے ذخیروں اور سرنگوں کے نیٹ ورکس کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ تنازع شروع ہونے سے قبل ایک امریکی مسلم سکالر عمر سلیمان نے تاریخی اہمیت کے حامل نقشے، علمی دستاویز کے علاوہ فلسطین کے تصور کو منظم طریقے سے مٹانے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
فلسطینی ورثے کا ریکارڈ اور شناخت کا تحفظ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ فوٹو عرب نیوز
عمر سلیمان کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف فلسطینی عوام یا اس ملک کا نام نہیں جو غائب ہو رہا ہے بلکہ لفظ فلسطین کو جان بوجھ کر ہمارے شعور سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
غزہ میں جاری تباہی سے سکالرز کو بنیادی مواد تک رسائی کے لیے تیزی سے ڈیجیٹل آرکائیوز پر انحصار کرنا پڑے گا کیونکہ ہارڈ کاپیاں خراب یا تباہ ہو رہی ہیں۔ نتیجے کے طور پر فلسطین الرابطہ (Palestine Nexus)جیسے پلیٹ فارم پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو جائیں گے۔