Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی فوج کا غزہ میں زیرِزمین ہتھیاروں کی فیکٹری کی موجودگی کا دعویٰ

فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری کا کہنا تھا کہ یہاں ایسے راکٹوں کے ڈیٹونیٹرز موجود ہیں جو 100 کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
اسرائیلی فوج نے پیر کو صحافیوں کو غزہ کے ایک ایسے مقام کا دورۂ کرایا جہاں ان کے ترجمان کے مطابق حماس کی ہتھیار بنانے والے فیکٹریاں اور سرنگیں موجود ہیں۔ ترجمان کے مطابق اس مقام پر حماس کے عسکریت پسند راکٹ تیار کرتے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صحافیوں کو وسطی غزہ میں البريج کے مقام کا دورۂ کرانے والے اسرائیلی فوجیوں نے کہا کہ سیمنٹ فیکٹریوں اور دیگر صنعتی سہولیات کی طرح نظر آنے والی اس جگہ پر درحقیقت زیرِ زمین میزائل اور گولے تیار کیے جاتے تھے۔
فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری کا کہنا تھا کہ یہاں ایسے راکٹوں کے ڈیٹونیٹرز موجود ہیں جو 100 کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ رینج وسطی اور جنوبی اسرائیل کے زیادہ تر حصے کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ فیکٹری صلاح الدین روڈ کے ارد گرد بنائی گئی تھی جو کہ شمالی جنوب کا ایک راستہ بھی ہے۔ یہ راستہ محصور علاقے میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جنگ کے آغاز کے بعد سے انہوں نے ہتھیار بنانے والی سب سے بڑی جگہ دریافت کی ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ان سرنگوں نے ایک ایسا نیٹ ورک تشکیل دیا جو پورے غزہ میں حماس کے جنگجوؤں سے منسلک تھا۔
ڈینیل ہگاری نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ’ان تنصیبات کو ڈھونڈ نکالا، ناکارہ بنایا اور اب تباہ کر رہے ہیں۔‘
اس جنگ کا آغاز گذشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا۔ اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں 11 سو 40 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت شہریوں کی تھی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے 250 افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا جن میں سے 132 ابھی بھی ان کی قید میں ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کم از کم 25 ہلاک ہو چکے ہیں۔

ڈینیل ہگاری نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ’ان تنصیبات کو دریافت کیا، ناکارہ بنایا اور اب تباہ کر رہے ہیں۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی بے رحمانہ فضائی بمباری اور زمینی حملوں کے نتیجے میں  23 ہزار 84 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک حماس کا خاتمہ نہیں ہوتا، جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ لڑائی سے غزہ کے ناقابل رہائش ہونے کا خطرہ ہے۔

شیئر: