درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس کا نوٹیفکیشن 14 نومبر اور توشہ خانہ کیس کا 28 نومبر کو جاری کیا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ’جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار دیا جائے اور درخواست کے زیرالتوا رہنے تک ٹرائل کورٹ کی کارروائی روکی جائے۔‘
خیال رہے عمران خان اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور ان کے خلاف القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ کیس چل رہے ہیں جن کی سماعت جیل کے اندر خصوصی عدالت کرتی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت سے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد پانچ اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
فیصلے میں ان کو کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں نو جنوری 2024 کو بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران یہ فرد جرم عائد کی گئی۔
عدالت نے بشریٰ بی بی کو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی نقول بھی فراہم کیں۔
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2018 سے 2022 کے دوران اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں بیرون ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف کم قیمت پر حاصل کیے اور پھر ان تحائف کو 6 لاکھ 35 ہزار ڈالر میں فروخت کیا۔
عمران خان کو ملنے والے تحائف میں سعودی عرب سے ملنے والی قیمتی گھڑی بھی شامل ہے جس پر خانہ کعبہ کا ماڈل بنا ہوا تھا اور اس کی عالمی مارکیٹ میں قیمت اندازے کے مطابق 60 سے 65 کروڑ روپے ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 21 اکتوبر 2022 کو قرار دیا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے آئین کے آرٹیکل 63 (1) کے تحت توشہ خانہ کے تحائف اور اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی کی۔
پندرہ اگست 2023 کو اسلام آباد کی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔
بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں عمران خان کی ضمانت منظور کی تھی۔
تاہم ہائی کورٹ نے سزا معطل کرکے نا اہلی ختم کرنے کی استدعا مسترد کی تھی۔
21 دسمبر کو دیے گئے فیصلے میں عدالت نے سزا معطلی کی درخواست مسترد کرکے ان کی نااہلی برقرار رکھی تھی۔
اسی طرح جی ایچ کیو حملہ کیس میں بھی ان کی باضابطہ گرفتاری ڈالی جا چکی ہے۔