Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے دیہات کا بارٹر نظام معدوم، ’کمرشل سسٹم نے روایات کا گلا گھونٹ دیا‘

گاؤں دیہات کی روایات بہت تیزی سے بدل گئی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ گندم کا رنگ پیلا پڑنے کے ساتھ ہی گاؤں دیہات میں لوہار کی دکان جو ایک کھلی حویلی نما جگہ ہوتی تھی وہاں سے ہتھوڑے سے لوہا کوٹنے اور بھٹی کے گھومنے کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی تھیں۔
کسان بابے ہاتھ میں لوہے کے ٹکڑے، پرانی درانتیاں لیے جمع ہو جاتے تو گاؤں کے نوجوان ہاتھوں میں ودان (بڑا ہتھوڑا) لے کر لوہار کی خاموش ڈائریکشن پر اسے کوٹتے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوہے کا ٹکڑا درانتی کی شکل اختیار کر لیتا۔
یہ محفل اپنے اندر کئی روایت سموئے ہوئے تھی جس میں اگرچہ ہر کام پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر ہوتا تھا اس کے باوجود گاؤں کا کوئی بزرگ آ جاتا تو نوجوان بنا کچھ کہے اپنی باری سے دستبردار ہو جاتے۔ بزرگ کو بٹھا کر اُن کی جگہ لوہار کا ہاتھ بٹاتے اور کام مکمل کر کے پھر اپنا کام کرواتے۔
گاؤں کا لوہار صرف درانتیاں ہی نہیں، ٹوکہ مشین کے ٹوکے تیز کرنے، لوہے کے ہل بنانے، مرمت کرنے اور جانوروں کو باندھنے کے لیے لوہے کی زنجیروں کی مرمت کرتا۔
اس کے بدلے میں سال میں دو بار گندم اور مونجی ملتی جن کی مقدار بھی زمیندار کی مالی حیثیت کے مطابق ہی از خود طے ہو جاتی تھی یا فصل کاٹتے ہوئے وہ اپنی مرضی سے کٹی ہوئے گندم اٹھا کر جمع کرتا اور تھریشر لگوا کر سال بھر کے لیے غلہ اور بھوسہ جمع کر لیتا۔
یہ ایک منظر ہے۔ دوسرے منظر کو دیکھیے کہ کسی بھی چار دیواری یا گلی میں رچھانی جس میں ایک استرا، قینچی، پرانی ہاتھ سے چلنے والی ٹرمنگ مشین، استرا تیز کرنے والی وٹی لے کر نائی بیٹھ جاتے اور گلی محلے کے لوگ آتے بال بنواتے، خط یا شیو بنواتے اور چلے جاتے۔ وہاں سے فرصت پا کر نائی اپنی رچھانی کندھے پر لٹکائے مختلف گھروں کا رخ کرتے اور بزرگوں یا معززین کی حجامت کرتے۔ انھوں نے ہر گھر یا گلی کے لیے ہفتے کا ایک دن خود ہی مقرر کر رکھا ہوتا تھا۔ 
نائی اور اس کے گاہکوں کے درمیان ایک زبانی معاہدہ بھی ہوتا تھا جسے سیپ کا نام دیا جاتا تھا جبکہ معاہدہ کرنے والوں کو سیپی کہا جاتا تھا۔
یہی نائی غم یا خوشی کے موقع پر کھانا بناتے جن میں گوشت، میٹھے اور نمکین چاول یا پھر حلوہ شامل ہوتا تھا۔
تیسرے منظر میں دیکھیے کہ پنجاب کے ہر دیہات میں ایک بڑے سے ہال میں پٹ سن سے بنی چٹائیاں پھیلائے آٹھ دس موچی چمڑے کے کھسے بنا رہے ہوتے تھے یا پھر جوتے مرمت کر رہے ہوتے۔ ان کا بھی اپنا ٹائم ٹیبل تھا کہ وہ صبح سویرے ناشتے کے بعد دکان پر آتے اور جوتے سلائی کرنا شروع کر دیتے جو صرف آرڈر پر تیار ہوتے تھے۔
دوسری جانب ظہر یا عصر کے بعد جوتے مرمت کرنے کا وقت ہوتا تھا جہاں بچے یا خواتین اپنے گھر کے افراد کے جوتے مرمت کروانے آتے تھے۔

اب درانتی سے گندم کاٹنے کے بجائے جدید مشینری استعمال ہوتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس کام کے بدلے بھی گندم اور مونجی کے دانے یا پھر شادی بیاہ کے موقع پر تحفے تحائف جسے پنجابی میں لاگ کہتے ہیں کی شکل میں کبھی کچھ نقدی یا گھر کے استعمال کا کوئی برتن، سوٹ یا چادر مل جاتی تھی۔
ذرا مزید آگے بڑھیں تو عصر اور مغرب کے درمیان گاؤں میں عورتیں پھیلی بھٹی گرم کرکے بیٹھ جاتیں، چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں یا پھر خواتین گندم، مکئی، چنے اور چاول کے دانے لاتے اور وہ انھیں ریت میں بھون کر دیتی جاتیں۔ وہ دانے بھوننے کی اجرت پیسوں کی شکل میں نہیں بلکہ انہی دانوں میں سے مٹھی کے حساب سے الگ کر لیتیں۔ یوں دو تین گھنٹے کی محنت سے وہ اپنے گھر کے لیے ایک دو دن کا اناج جمع کر لیتیں۔
پنجاب کے دیہات میں اس طرح کے درجنوں پیشے تھے جو بارٹر سسٹم کے تحت چلتے تھے۔ جس کے باعث دیہات میں مقامی سطح پر زرعی ضروریات کے لیے آلات کی مقامی سطح پر تیاری کے ساتھ ساتھ مرمت کا کام بھی کیا جاتا تھا۔
پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے رحمت لوہار بیک وقت لوہار اور ترکھان دونوں کام کرتے تھے۔ یعنی وہ گاؤں کے کسانوں کے لیے لوہے اور لکڑی سے جہاں درانتی، کھرپے، کسیاں، ہل اور دیگر آلات بناتے وہیں وہ ان سب کو تیز کرنے اور مرمت کرنے کا کام بھی کرتے۔ گھروں میں چارپائیاں جوڑنے اور کچن کے لیے بڑی لکڑیاں کاٹ کر انہیں چولہے کے سائز کے لیے چھوٹا کرنے کا کام بھی کرتے۔ شادی بیاہ کے موقع پر دیگوں کے لیے لکڑی کاٹنا بھی انہی کی ذمہ داری تھی۔
ان کے مطابق گاؤں کے حالات بدلے، لوگوں کے پاس پیسہ آنے لگا اور خود ان کی عمر بھی زیادہ ہو گئی اور اگلی نسل نے باپ دادا کا پیشہ اپنانے کے بجائے بیرون ملک جانا مناسب سمجھا تو رفتہ رفتہ رحمت لوہار کی دکان ویران ہوتے ہوتے بند ہو گئی۔
انھوں نے بتایا کہ ’پہلے پہل تو لوگ درانتیوں سے گندم کاٹتے تھے، پھر مشینری آنے لگی اور اب تو تھریشر کا کام بھی ختم ہو گیا ہے، لوگ سیدھا ہی جدید ہارویسٹنگ مشینیں لاتے ہیں اور گندم کے دانے سیدھے آڑھتی تک یا پھر گھروں تک لے آتے ہیں۔‘

گاؤں دیہات سے جب نوجوان بیرون ملک محنت مزدوری کرنے گئے تو حالات بدل گئے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

وہ یاد کرتے ہیں کہ دس 20 سال پہلے تک گندم ہی کٹائی کے موسم میں جب درانتیاں بنوانے والوں کا رش ہوتا تھا وہ کس طرح ایک دن میں کئی کئی درجن درانتیاں بنا لیتے تھے کیونکہ وہ اس کام میں اکیلے نہیں ہوتے تھے بلکہ گاؤں کے نوجوان ان کی دکان پر جمع ہوتے اور اپنا زور آزمانے اور مدد کے جذبے سے ہتھوڑا چلاتے۔
دوسری جانب لکڑیاں کاٹنے کا عمل گاؤں دیہات میں گیس سلینڈر آنے کے بعد ختم ہو چکا ہے جبکہ جہیز کے سامان سے چارپائیاں نکل چکی ہیں اس لیے اب وہ کام بھی ختم ہوا۔ گھریلو ضروریات کی چارپائیاں بھی بازار سے لکڑی اور لوہے دونوں میں دستیاب ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب کٹائی شروع ہو جاتی تو میں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو لے کر نکلتا اور ہر گھر کے کھیت سے اپنی مرضی کے مطابق گندم اٹھاتے اور ایک جگہ جمع کرتے۔ جب یہ عمل مکمل ہوتا تو گاوں میں سب سے آخر میں تھریشر میری ڈھیری پر جمع ہوتا۔ میرے پاس بھی ایک درمیانے درجے کے کسان کے برابر دانے اور بھوسا ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ہر گھر سے آدھی یا پوری بوری دانے بھی لیتے تھے جو ہماری چھ ماہ کی محنت کی اجرت ہوتی تھی۔‘
پرانے کسان فضل احمد نے کہا کہ ’اب چونکہ اکثریت درانتی سے گندم کاٹتی ہی نہیں اس لیے کھیت سے گندم اٹھانے کی روایت تو دم توڑ چکی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی مشینری اور دیگر ضروریات کا سامان بازاروں سے با آسانی مل جاتا ہے اور کمرشل نظام نے دیہات میں دانوں کے بدلے خدمات کی فراہمی کا کام بھی ٹھپ ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی کٹائی کے بعد گھر پر آ جائے تو اسے ماضی کی روایت کے مطابق دانے دے دیے جاتے ہیں۔‘
پنجاب کے ایک دیہی بزرگ حاجی احمد جو نصف صدی سے زائد عرصہ تک روایتی نائیوں سے حجامت بنواتے رہے ہیں اب انھیں یا تو ان کے بچے گاؤں میں بنے سیلون پر لے جاتے ہیں یا پھر سیلون سے کاریگر گھر آ کر حجامت کر جاتا ہے اور اس کے بدلے میں رقم وصول کرتے ہیں۔

شہروں کی طرح اب دیہات میں بھی حجاموں کی دکانیں کھل چکی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا ہے کہ جب سے روپیہ پیسہ عام ہوا ہے اور لوگوں کا لائف سٹائل تبدیل ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں اقدار نے بھی دم توڑ دیا ہے۔
پرانے وقت کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سال میں ایک بار جوتا بنواتے اور ایک ربڑ کا جوتا یا سلیپر لیتے تھے اور باقی پورا سال موچی سے اس کی مرمت کرواتے گزر جاتی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’شادی بیاہ یا فوتگی پر نائی ہی کھانا بناتے تھے اور کمی بیشی کی صورت میں جھڑکیں بھی برداشت کرتے تھے۔ لوگ صرف سامان لا کر دیتے تھے اور وہ کھانا بناتے تھے، بدلے میں جاتے ہوئے اپنے اہلخانہ کے لیے کھانا لے جاتے تھے۔ اب تو شادی کے لیے ہال اور مارکی بک کر لی جاتی ہے اور کسی وفات پر کھانے کا کام کیٹرنگ والوں کو سونپ دیا جاتا ہے۔ کھانا اچھا ہے یا برا اگلوں نے جو رقم بتا دی وہ ادا کرنی ہے۔‘
ان کے مطابق ’شادی بیاہ کے موقع پر اپنی نگرانی میں کھانا بنوانے کے لیے برادری کے ایک دو لوگوں کی ڈیوٹی لگ جاتی تھی جو اپنی نگرانی میں کھانا تقسیم بھی کرواتے تھے جنھیں لاکڑی کہا جاتا تھا۔ کمرشل سسٹم نے ان روایات کا گلا بھی گھونٹ دیا ہے۔‘

شیئر: